Maktaba Wahhabi

615 - 924
بھی یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ اردو ادب میں مولانا مودودی رحمہ اللہ ایک سادہ دلنشین طرزِ تحریر میں ممتاز ہیں ۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ۲۶؍ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعتِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اس پہلے اجلاس میں پورے ہندوستان میں سے صرف پچھتر( ۷۵)افراد شریک ہوئے۔ قیامِ جماعت کے وقت وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان میں ’’الجھاد في الإسلام‘‘ بہت وقیع کتاب ہے۔ اس کی اشاعت(۱۳۴۷ھ = ۱۹۲۸ء)کے وقت مولانا کی عمر صرف پچیس(۲۵)برس تھی۔ اس کتاب میں مغربیوں اور ہندوؤں کے اس منفی اور ظالمانہ پروپیگنڈے کا رد کیا گیا ہے، جو وہ جہاد کے متعلق کرتے رہتے ہیں ۔ مولانا مرحوم کی بے شمار تحریریں اور تقریریں پاکستان اور ہندوستان کے رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی ہیں اور چند ایک کتابی صورت میں شائع کی گئی ہیں ۔ ان کی ایک سو سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ صرف چند کتابوں کے ناموں پر ایک نظر ڈالیے: سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلامی اور جدید معاشی نظریات، اسلام اور ضبطِ ولادت، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، تحریکِ آزادی اور مسلمان، تفہیمات، مرتد کی سزا، رسائل و مسائل(پانچ جلدیں )سانحہ مسجد اقصیٰ، سود(دو جلدیں )، قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلو، سنت کی آئینی حیثیت، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، مسئلہ قومیت، مسئلہ جبر و قدر، مسئلہ ملکیت زمین، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش(تین جلدیں )معاشیات اسلام، نثری تقریریں ، مولانا مودودی رحمہ اللہ کے خطوط، مکتوباتِ مودودی رحمہ اللہ ، آفتابِ تازہ، تصریحات، بانگ سحر، استفسارات(تین جلدیں )، اسلام کا سرچشمہ قوت، افاداتِ مودودی رحمہ اللہ ، پردہ، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، تفہیم الاحادیث، خطبات اور دینیات وغیرہ اہم ہیں ۔ سید صاحب ۱۰ برس کے تھے کہ بطورِ صحافی اپنی کارکردگی سے اصحابِ دانش کو متاثر کیا۔ ۱۹۱۹ء میں ترکِ موالات اور تحریکِ خلافت میں پرجوش انداز میں حصہ لیا۔ بعض اہم اخبارات، جن میں ’’مدینہ‘‘(بجنور۔ یوپی)، تاج(جبل پور)اور جمعیت علمائے ہند کے روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘(دہلی)وغیرہ شامل ہیں ، ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف پُر جوش مضامین لکھے۔ ہندی مسلمانوں میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی تھیں ، انھیں واشگاف انداز میں واضح کیا۔ اپنی ذاتی کوشش سے انھوں نے انگریزی سیکھی اور جدید علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کی۔ ۱۹۵۱ء میں علما کے ۲۲ نکات کی منظوری میں بھی ان کا کردار بہت نمایاں تھا۔ تردیدِ قادیانیت کے حوالے سے ماضی میں جو ختمِ نبوت کی تحریکیں برپا ہوئیں ، اس میں بھی مولانا رحمہ اللہ کی قیادت نے مسلمانانِ پاکستان کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا۔ مولانا صاحب رحمہ اللہ ۱۹۰۳ء = ۱۳۲۱ ھ کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی تعلق سادات کے خاندان سے ہے۔ آپ کے والد سید احمد حسن مرحوم نے سر سید احمد خان سے خاندانی قرابت کی بنا پر اُن کے علی گڑھ کالج میں انھیں داخل کرایا تھا۔ بعد میں انھوں نے وکالت کی تعلیم بھی حاصل کی اور دیگر فنونِ علمیہ و دینیہ کے حصول
Flag Counter