Maktaba Wahhabi

642 - 924
ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا ۲؍ جنوری ۲۰۱۶ء کو بروز ہفتہ میرے بھائی انیس کی شادی تھی۔ ہم نے ماموں جی کو ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز منگل کو فون کیا اور شادی پر آنے کی دعوت دی۔ ماموں جی رحمہ اللہ نے کہا: اگر میں نہ آسکا تو ناراض نہ ہونا، کیوں کہ میری طبیعت ساتھ نہیں دے رہی۔ ہم نے اصرار کیا اور کہا کہ سابقہ روایات کے مطابق بھائی انیس کا نکاح بھی آپ نے ہی پڑھانا ہے تو آپ نے ہماری دعوت کو قبول کیا۔ جب میں جامعہ سلفیہ داخل ہونے کے لیے آیا تو حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب حفظہ اللہ نے محبت و پیار اور شفقت سے کہا کہ آپ نے پڑھنا ہے، صرف پڑھنا ہے اور اپنے ماموں جی رحمہ اللہ کا نام روشن کرنا ہے۔ جب میں کلاس میں گیا تو سب اساتذہ حیران ہو گئے کہ امتحانات سے ۲۰ دن قبل آپ کو داخلہ کس نے دلوایا۔ میں نے بتایا کہ میرے ماموں جی رحمہ اللہ نے داخلہ دلوایا ہے تو سب اساتذہ میرے ماموں جی رحمہ اللہ کی وجہ سے میری عزت و تکریم کرنے لگے، یہ بات تب میرے لیے بہت ہی باعثِ فخر تھی۔ جب میں گھر جاتا تو میرے استاد محترم بالخصوص قاری عبدالحسیب صاحب حفظہ اللہ کہتے تھے: ادب سے اپنے ماموں جی رحمہ اللہ کو میرا سلام کہنا، لیکن جس دن سے وہ اس دنیائے فانی سے گئے ہیں تو کسی استاد نے یہ نہیں کہا کہ ’’انھیں سلام کہنا…۔‘‘ یہ میرے امتحان کے ایام تھے کہ ۲۰ دسمبر بروز اتوار بعد نمازِ عصر جامعہ سلفیہ میں شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی صاحب حفظہ اللہ نے اعلان کیاکہ ماموں جی رحمہ اللہ کی طبیعت خراب ہے۔ دعا کرو تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر دل میں خیال آیا کہ تقریباً ۴ یا ۵ سال سے ہر سردی میں بیمار ہو جاتے ہیں اور اللہ شفا دے دیتا ہے، لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ اس بار شفا یاب نہیں ہوں گے۔ ۲۲؍ دسمبر بروز منگل کا سورج طلوع ہونے والا تھا۔ میں پیپر کی تیاری میں مصروف تھاکہ اچانک ایک اعلان ہونے لگا تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ ماموں جی رحمہ اللہ کی عیادت کے لیے ان سے بات کرتا ہوں ۔ لیکن افسوس یہ اعلان تو ماموں جی کی وفات کا ہی تھا، میں نے جلدی سے اٹھنا چاہا، لیکن میرے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی ہو اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو گئیں … میں مولانا فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ کے پاس آیا اور ان سے گھر جانے کے لیے اجازت طلب کی تو کہنے لگے: پیپر دے کر چلے جانا، مجھ سے پریشانی میں پیپر بھی اچھی طرح حل نہ ہوسکا۔ الغرض میں امتحان سے فارغ ہوا تو سیدھا گھر گیا تو ایسے لگا کہ ماموں جی رحمہ اللہ کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہو کہ اے معوذ! امتحان کی تیاری خوب اچھے طریقے سے کر… لیکن کیا ہوا امتحان کے دن ہی تو وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور جب میں ان کی وفات کا اعلان کرنے لگا تو میری زبان حرکت نہیں کر رہی تھی…۔
Flag Counter