Maktaba Wahhabi

751 - 924
دست کاری میں تری ماضی کی اک تصویر ہے اہلِ دانش پر ترے مضمون کی تاثیر ہے دیپ بن کے زندگی بھر محوِ ضَوباری کیا سوئے مشرق جس کے دم سے رونق تنویر ہے کل تلک تو صبح تھی اب آگئی ہے شامِ غم سوگواری میں ہے ڈوبی محفلِ عرب و عجم عالم اسلام میں ہر سو ہیں دیوانے ترے بزمِ اردو کے لیے زینت ہیں دردانے ترے سب پہ ظاہر ہیں ترے احسان و کاوش دہر میں دیر تک لکھیں گے اہلِ ذوق افسانے ترے واقعی اسلاف کی سیرت کا شیدائی تھا تو خود تھا سلفی منہج سنت کا سودائی تھا تو وقت کے ذہبی صفت اے طبری ہندوستان! تاب فنکاری تری تحریر کرتی ہے عیاں شاہدِ تاریخ تیری فیض کا دیوانہ ہے تو بہت معروف تھا اہلِ خرد کے درمیاں سرزمین ہند میں اک صاحب خامہ تھا تو تیری تصنیفات سے ظاہرہے علامہ تھا تو تیرے خطے سے گزرے صدہا اربابِ قلم مقدس شیرازی و مسعودی اور ابن حکم رازی، بشاری، کا وہ خطہ کبھی مسکن رہا فیضی بیرونی سے گزرے جامع عرب و عجم تو بھی ان کے مثل اس خطے میں تھا آفاق گیر ہم سمجھتے ہیں قیامت تک رہے گا بے نظیر سچ ہے اصغر غم زدوں کی صف میں شامل ہم بھی ہیں یعنی تیری تعزیت سے زخمی بسمل ہم بھی ہیں لمحہ رنج و الم میں تو فقط تنہا نہیں غم کی اس محفل میں تیرے ساتھ اے دل ہم بھی ہیں میرے رب اسحق بھٹی کو جزائے خیر دے! جنت الفردوس میں ان کو حور و لحمِ طیر دے (نتیجہ فکر: نثار احمد اصغر فیضی۔ استاذ جامعہ محمدیہ غلہ منڈی، بھیر ہوا، نیپال)
Flag Counter