Maktaba Wahhabi

761 - 924
مجھے لکھنا ہے انسانیت کا ایک بابِ تابندہ منور جس کے الفاظ مصرع جس کے رخشندہ ادارہ تفہیم الاسلام، مورخِ اسلام محسنِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی زندگی ہی میں ان کی مشاورت سے ان کی علمی عبقریت و تحقیقی خدمات پر اشاعتِ خاص کا بندوبست کر رہا تھا اور اس سلسلے میں ۲۰۰ صفحات کا خصوصی نمبر مرتب ہو گیا تھا۔ اشاعت کی تیاریاں مکمل تھیں کہ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو مخدوم محترم دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اس واقعے کے تین روز بعد ۲۵؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو بروز جمعۃ المبارک مولانا مرحوم کی یاد میں دفتر ’’تفہیم الاسلام‘‘ میں اراکینِ ادارہ کا ایک اہم تعزیتی اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت برادرِ اکبر مولانا حفیظ اللہ خان عزیز حفظہ اللہ نے فرمائی۔ اجلاس میں طے پایا کہ ادارے کو مولانا رحمہ اللہ کی جو علمی سرپرستی حاصل رہی، اس کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی حیات و خدمات پر جامع قسم کی ایک کتاب مرتب کی جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں راقم عاجز کو ذمے داری سونپی گئی کہ حضرت مولانا مرحوم کے ابتدائی، تنظیمی اور جماعتی خدمات کی ترتیب اور ان کی علمی گوشوں کی تفہیم کے لیے اصحابِ علم و فضل سے باقاعدہ رابطہ کر کے مضامین لیے جائیں ۔ فیصلے کے وقت میرے پاس صرف دس مضامین تھے۔ ان میں میرا اپنا ایک مضمون تھا، جو ایک سو(۱۰۰)صفحات پر محیط تھا۔ نو دیگر اہلِ قلم تھے۔ چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے اور توکل کے بل بوتے پر ملک و بیرون ملک کے اصحابِ فکر و فن کے بابِ عالی پر دستک دی تو کچھ ہی عرصے میں درجنوں مضامین اور مقالات کا ڈھیر لگ گیا، جو آپ اس کتاب کے ساتویں باب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ جن ذی قدر علمائے کرام، عالی نسبت شیوخِ جماعت اور نامور صحافیوں و دانشور حضرات نے مجھ پر اعتماد کرکے مولانا مرحوم کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کے اظہار میں ان کے تذکرہ و سوانح، علمی فضل و کمال، محدثانہ جلالتِ قدر، علمی، تصنیفی، اصلاحی اور سیاسی کارناموں پر مشتمل علمی مآثر اُجاگر کیے ہیں اور اُن کے دلچسپ حالات و واقعات اور خراجِ عقیدت پر مشتمل منظوم تاثرات بھیجے ہیں ، میں بہ صمیمِ قلب ان کا شکر گزار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہِ ربانی سے انھیں خصوصی اجر سے محروم نہ رکھے، انھیں علم و عمل کے میدان میں اور زیادہ ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ ناسپاسی ہوگی، اگر ’’ارمغانِ مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘میں ان اصحابِ نگارش کا تعارف نہ کرایا جائے۔ کتاب کا یہ آخری باب ان حضرات کے تعارف کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، جس میں بیاسی(۸۲)صاحبانِ علم و دانش کے تعارف لکھے گئے ہیں ۔ جن حضرات کے متعلق معلومات بہ آسانی مل سکی ہیں ، ان کا تعارف قدرے زیادہ آگیا ہے اور بعض حضرات کے حالات و کوائف باوجود کوشش کے زیادہ نہیں مل سکے۔ اس لیے ان کا
Flag Counter