Maktaba Wahhabi

85 - 924
آزادی کے جذبوں سے سرشار بھٹی مرحوم کو تحریکِ آزادی کے ہراول سپہ سالاروں کو دیکھنے، ملنے اور اُن کی باتیں سننے کا موقع ملا، جن میں ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ ، گاندھی، نہرو، لیاقت علی خاں رحمہ اللہ ، عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ، علامہ مشرقی رحمہ اللہ بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ شامل ہیں ۔ انڈیا کا صدر گیانی ذیل سنگھ، بھٹی مرحوم کا بچپن کا ساتھی تھا، دونوں اکٹھے آزادی کی جدوجہد میں ڈیڑھ سال جیل میں رہے۔ گیانی ذیل سنگھ نے صدر بننے کے بعد اپنے بچپن کے دوست کو انڈیا آنے کی دعوت دی، لیکن درویش طبیعت بھٹی مرحوم انڈیا نہ جاسکے۔ قائدِاعظم نے کس طرح کانگریس اور نیشنلسٹ علما کا مقابلہ لیا، وہ داستان پڑھنے کے لائق ہے جو ’’گزر گئی گزران‘‘ میں درج ہے۔ ۲۰۰۹ء میں مرحوم نے اپنی آپ بیتی ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے لکھی۔ تحریکِ آزادی، سیاستدانوں کے سیاہ اور سفید کارنامے، اس دور کے حالات، کانگریس کیسے وجود میں آئی؟ مسلم لیگ کیسے بنی؟ بٹوارہ، وطنِ عزیز کے ابتدائی دور کی کہانیاں ؛ بہت کچھ اس کتاب کا حصہ ہے۔ مرحوم کا اصل کارنامہ شخصیت نگاری ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اساتذہ، علما، اہلِ علم، اہلِ قلم، اہل اللہ، سیاسی، سماجی اور صحافتی دنیا کے عظیم المرتبت اصحابِ علم و فضل کے حالاتِ زندگی، جس میں تمام مسلکوں دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث حتیٰ کہ شیعہ علما کے بھی، انتہائی احترام کے جذبات سے لکھے گئے ہیں ۔ درویش صفت، عاجزی اور سادگی کی جیتی جاگتی تصویر مرحوم بھٹی صاحب کے یہ مجموعے: نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں ، قافلۂ حدیث، ہفت اقلیم، کاروانِ سلف وغیرہ ناموں سے شائع ہو کر دادِ تحسین وصول کرچکے ہیں ۔ ملک و قوم کی خدمت کرنے والی عظیم محسن شخصیتوں کی درخشاں زندگیوں کو آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کر دینا مرحوم کا بہت قابلِ ستایش کارنامہ اور عظیم صدقہ جاریہ ہے۔ خونِ جگر سے لکھی گئی یہ کتابیں پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ ان شخصیتوں کو دیکھ رہا ہے، انھیں اُٹھتے بیٹھتے چلتے محسوس کرتا اور ان سے کسب فیض کر رہا ہے۔ ان باکمال زندگیوں کے روشن پہلوؤں کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ بے اختیار پڑھنے والا ان اوصافِ حمیدہ پر عمل کی منصوبہ بندی شروع کرتا ہے۔ مشہور اخبار نویس خورشید گیلانی مرحوم نے مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شگفتہ، شائستہ اور منفرد اسلوبِ نگارش کی نمایندہ کتابیں ، جنھیں پڑھتے ہوئے نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتا ہے۔‘‘ مرحوم کی زندگی بلاشبہہ ایک قابلِ رشک زندگی ہے۔ نوجوان نسل کے لیے ان کی داستانِ حیات اور دیگر کتب روشنی کے ایسے چراغ ہیں جن کی مدد سے زندگیوں کو کامیاب و کامران بنا سکتے ہیں ۔ مرحوم کے کارنامے بیان کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات سے نوازے اور قوم کو ایسے صلح کل، باہمی احترام اور رواداری کی دنیا بسانے والے اہلِ علم عطا فرمائے۔
Flag Counter