Maktaba Wahhabi

102 - 924
ماضی کے سعید اقبال طاہر اور آج کے میاں طاہر کے توسط سے۔ وہ گاہے بگاہے اپنے ادارے میں ممتاز علمی و ادبی شخصیات کو مدعو کرکے ہم جیسوں کو ان سے استفادے کا موقع بہم پہنچاتے رہے ہیں ۔ بھٹی صاحب مرحوم سے ہماری ملاقاتیں ان کے ادارے ہی میں ہوئیں ، یا دو تین بار ان سے فون پر گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔ سچ بات یہ ہے کہ تمام تر علمی جاہ وجلال اور شوکت و تمکنت کے باوجود ان کی منکسر المزاجی، سادگی اور شفقت و محبت نے ان کی سربلندی کے گہرے نقوش دل و دماغ پر چھوڑے۔ یہ نقش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔ اُس خانوادے سے تعلق ہونے کے ناتے جس نے ہمیشہ وحدتِ امت کا درس دیا، اُمتِ مسلمہ کو فرقوں میں بانٹنے کے بجائے ایک لڑی میں پرونے کی جدوجہد کی، اس عظیم الشان ہستی کا لختِ جگر ہونے کی نسبت سے، جس نے ہر آن اتحاد کا درس دیا، مختلف مسالک کے علم برادروں کو مشترکہ اہداف و مقاصد کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی سعی کی، ان کے جلیل القدر علما کو ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے زندگی بھر قائل کیا، ہمارے لیے کسی ایک فرقے یا مسلک پر ہی ارتکاز کبھی قابلِ ہضم نہیں رہا۔ ابا جان(مولانا عبدالرحیم اشرف ۔علیہ الرحمہ والغفران)نے ہمیں اسی کا درس دیا، اسی فکر پر عمل پیرا ہو کر دکھایا، اسی کے تابندہ مناظر سے ہماری روح کو جلا بخشی اور انھیں ہمارے قلب و نظر میں سمو دیا۔ ہم نے اپنے گھر منعقد ہونے والی بیسیوں نہیں ، سیکڑوں مشاورتوں میں سبھی مسالک کے ممتاز علما کو شریک ہوتے دیکھا۔ یوں ان سب کا احترام ہمارے رگ و پے میں سرایت کرتا چلا گیا۔ اہلِ حدیث ہوں یا دیوبندی، بریلوی ہوں یا بعض اوقات معتدل شیعہ علما، وہ سب ہمارے مہمان ہونے کے حوالے سے بھی محترم ہوتے اور اپنی اپنی مسلکی نسبت کے ناتے سے بھی۔ محترم بھٹی صاحب ۔رحمہ اللّٰہ و غفرلہ۔ کے عظیم تالیفی و تصنیفی کام میں یہ ارتکاز خاصا دکھلائی دیتا ہے، لیکن ان کے ہاں دیگر مسالک کے اہلِ علم حضرات کے بارے میں احترام اور اعترافاتِ خدمات کا جو ٹھوس رویہ پایا جاتا ہے، وہ انتہائی قابلِ قدرہے اور مسلکی تعصب میں گندھے ہوئے لوگوں کے لیے روشِ اعتدال پر گام زَن ہونے کا عملی پیغام بھی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے مسلکِ اہلِ حدیث، اس سے وابستہ شخصیات اور ان کی خدمات ہی کو بالعموم اپنی تصنیفی کاوشوں کا عنوان بنایا، لیکن انھوں نے دوسرے مسالک کی بڑی ہستیوں کے تذکرے سے بھی گریز کی راہ اختیار نہیں کی۔ فقہائے ہند اس کی ناقابلِ تردید گواہی فراہم کرتی ہے۔ اپنے نام سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے یہ جملہ مسالک کے فقہا کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ دیگر مکاتبِ فکر کی شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے وہ ان کا احترام کماحقہ ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں ۔ ان جیسا مرنجاں مرنج قسم کا انسان اس کے علاوہ کسی اور رویے کو اپنا بھی کیسے سکتا ہے؟ اس بارے میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تصنیفات کے ذریعے سے آنے والی نسلوں کو وہ عظیم ذخیرہ منتقل کر دیا ہے جو اگر بھٹی صاحب رحمہ اللہ نہ کرتے تو کوئی دوسرا کر ہی نہ پاتا۔ یہ ذخیرہ بے حد عظیم الشان ہے، قابلِ قدرہے اور لائقِ افتخار بھی۔ ان کے رواں دواں قلم نے وہ کچھ عطا کر دیا ہے، جس سے صدیوں
Flag Counter