Maktaba Wahhabi

103 - 924
خوشہ چینی ہوتی رہے گی اور اس سے آنے والی نسلیں تواتر کے ساتھ استفادہ کرتی چلی جائیں گی۔ بھٹی صاحب مرحوم و مغفور نے جو کچھ لکھا، وہ ان کے بے پناہ حافظے، مشاہدے اور ذخیرۂ معلومات کا غماز ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ انھیں اپنے حافظے اور معلومات پر بلا کا اعتماد تھا۔ یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ کوئی بھی قلم کار جب کچھ ورطۂ تحریر میں لاتا ہے تو اسے اس تحریر میں بیان کردہ حالات و واقعات، نکات اور معلومات پر سو فی صدیقین ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی حوالے سے تشکیک کا کوئی سا بھی شائبہ اس کے ذہن میں موجود ہو تو وہ اسے قرطاس پر منتقل ہی نہ کرے اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ جیسا عظیم مصنف اگر لکھے تو اس کا اعتماد تو حدود و قیود سے ماورا ہوتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے گزارش کی کہ میں ’’المنبر‘‘ کی ایک ضخیم اشاعت ’’تذکار عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ ‘‘کے نام سے شائع کر رہا ہوں ، آپ بھی اس کے لیے کچھ تبرک عنایت فرما دیں ۔ فرمانے لگے کہ میں نے اپنی کتاب ’’گلستانِ حدیث‘‘ میں آپ رحمہ اللہ کے والد گرامی کے بارے میں لکھا ہے، وہیں سے لے لیجیے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ مضمون کمپوز ہو کر میرے سامنے آیا تو دورانِ مطالعہ مجھے محسوس ہوا کہ ایک آدھ مقام پر حقائق و واقعات شاید ویسے نہیں ہیں جیسا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بیان فرمائے ہیں ۔ اس بارے میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے براہِ راست تذکرے کا یارا نہ تھا۔ ان کی ثقاہت، استناد کے درجے تک پہنچی ہوئی ان کی تحریریں اور خود اُن کا مقام و مرتبہ، اس سب کچھ کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں اپنے اندر حوصلہ نہیں پا رہا تھا کہ براہِ راست فون پر یا بالمشافہہ اپنے تحفظات ان کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر سکوں ۔ میں نے جناب محمد سلیم جباری کو یہ کٹھن فریضہ تفویض کیا۔ انھوں نے فون پر محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے بات کی اور میرا موقف ان کے سامنے رکھا۔ انھوں نے جواباً فرمایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہی درست ہے۔ ایسے میں میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں ان کی تحریر میں کوئی تبدیلی کر پاتا۔ چنانچہ میں نے اس کا حل یہ نکالا کہ حاشیے میں اپنی رائے قلم بند کر دی۔ جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی علیہ الرحمہ سے براہِ راست رابطہ بلاشبہہ چند ہی ملاقاتوں تک محدود رہا، ان سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو بھی چند بار سے زائد نہ ہو سکی، البتہ ان سے مستقل لیکن بالواسطہ رابطے کا ذریعہ ’’المنبر‘‘ رہا۔ ایک بار ملاقات کے موقع پر میں نے ان سے دریافت کیا کہ ’’المنبر‘‘ آپ تک پہنچ رہا ہے؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو مجھے شرمندگی سی ہوئی۔ تب میں نے باقاعدہ ترسیل کا وعدہ کیا اور پھر یہ مسلسل ان کے ہاں شرفِ باریابی پاتا رہا۔ گاہے وہ اس کا تذکرہ بھی فرما دیا کرتے تھے۔ میرے لیے یہ امر باعثِ افتخار ہے کہ انھوں نے ’’گلستانِ حدیث‘‘ میں اسی حوالے سے تین چار مرتبہ راقم الحروف کا ذکر کیا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا شاید کسی کے بس میں بھی نہ ہو کہ جناب محمد اسحاق بھٹی مرحوم سادگی و انکساری کا پیکر مجسم تھے۔ اس دور میں جب دینی پیشواؤں کی ایک بڑی تعداد اپنے نام کے ساتھ تین تین، چار چار، سابقے لاحقے لگائے بغیر مطمئن نہیں ہو پاتی، وہ اپنی کتب پر اپنا نام صرف ’’محمد اسحاق بھٹی‘‘ ہی لکھواتے تھے۔ ہر سابقے اور لاحقے سے
Flag Counter