Maktaba Wahhabi

123 - 924
ڈیوٹی پر جانے سے قبل دوپہر کو انجم رحمانی صاحب کے دفتر جاتا۔ یہ دفتر کیا تھا، ہم دوستوں کا ڈیرہ تھا، جہاں لاہور کے اہلِ علم و قلم جمع ہوتے۔ رحمانی صاحب وضع دار شخصیت کے مالک، وسیع المطالعہ، کتب سے محبت کرنے والے اور روشن خیال ہیں ۔ ان کے احباب میں ہر مکتبِ فکر کے لوگ ہوتے۔ مثلاً سید سبط الحسن ضیغم، علامہ ع غ، پروفیسر افضل حق قریشی، پروفیسر شیر محمد گریوال، پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ ، مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ وغیرہ۔ میں ان سب میں کم عمر تھا۔ ان کی صحبت سے استفادہ کرتا اور علمی و ادبی مباحث سنتا۔ یہیں مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ ان دنوں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ اور اس کے مجلہ ’’المعارف‘‘ کے مدیر تھے۔ وہ ڈاکٹر انجم رحمانی سے ملنے آئے تو رحمانی صاحب نے میرا ان سے تعارف کروایا۔ بڑی گرم جوشی سے ملے اور بتانے لگے کہ آپ کے والد(حکیم عنایت اللہ نسیم رحمہ اللہ )سے میرے روابط ہیں اور سلسلہ خط کتابت بھی ہے۔ وہ کبھی کبھار ہمارے دفتر مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ سے ملنے تشریف لاتے تو ان سے نشست رہتی۔ میں نے مولانا محمد اسحاق بھٹی کا نام سن رکھا تھا، مگر ملاقات پہلی بار ہوئی تھی۔ پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ میں ان کی گفتگو بڑے غور سے سنتا رہا۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا اور یادداشت بڑی تیز تھی۔ برصغیر کی تاریخ انھیں ازبر تھی۔ جمعیت علمائے ہند کا ذکر چل نکلا تو ماضی کے واقعات اس طرح سنا رہے تھے جیسے کل کی بات ہو۔ انھیں اس بات کا گلہ تھا کہ بیشتر قلمکار تحقیق کے بغیر لکھتے ہیں اور تاریخ کے حوالے سے فاش غلطیاں کرتے ہیں ۔ انھیں اس بات کا بھی گلہ تھا کہ تاریخ کے حوالے سے بعض لوگ اسے بدل کر لکھتے ہیں ۔ پہلی ملاقات ہی نے بہت متاثر کیا۔ وہ بہت صاف گو، تعصب سے پاک اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے پر قادر تھے۔ ان کا اندازِ بیاں سادہ اور رواں تھا۔ وہ خوش مزاج بھی تھے۔ ماضی کے واقعات رواں دواں انداز میں بیان کرتے۔ پھر بیان کرنے کا انداز ایسا کہ اکتاہٹ نہ ہوتی۔ وہ روایتی مولوی بھی نہ تھے۔علم و فضل کا تو گویا وہ پہاڑ تھے۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی وفات تک جاری رہا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب کے دفتر سے اٹھتے تو پیدل انار کلی چل پڑتے۔ اردو بازار تک جاتے ہوئے وہ واقعات اس پیرائے میں بیان کر رہے ہوتے کہ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ جیسی کیفیت ہو جاتی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے ریٹائرڈ ہوگئے تو ان کو لکھنے کے لیے زیادہ وقت مل گیا۔ ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ لاہور میں خاکے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلا خاکہ گیانی ذیل سنگھ کا تھا۔ جس کا عنوان ’’کچے گھر سے قصرِ صدارت تک‘‘ تھا۔ گیانی ذیل سنگھ جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے، تحریکِ آزادی کے کارکن بھی رہے۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی اس تحریک کے متحرک کارکن تھے۔ گیانی ذیل سنگھ سے ان کا تعلق اسی دور میں قائم ہوا۔ فرنگی دور میں جب ہندوستانی ریاستوں میں ’’پرجا منڈل‘‘ کے نام سے کمیٹیاں بنیں تو ذیل سنگھ صدر اور مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سیکرٹری تھے۔ اس طرح انھوں نے گیانی ذیل سنگھ کو قریب سے دیکھا اور ان کا خاکہ بڑے خوبصورت
Flag Counter