Maktaba Wahhabi

124 - 924
پیرائے میں لکھا۔ اس کے بعد کئی خاکے لکھے، جن میں قاضی حبیب الرحمن منصور پوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا محمداسماعیل سلفی، حمید نظامی، مولانا کوثر نیازی، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، رئیس احمد جعفری، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ وغیرہ۔ پھر ان خاکوں میں کچھ اضافے کیے اور انھیں کتابی صورت میں پیش کیا۔ اس طرح بعد میں کچھ نئے خاکے لکھے۔ اب تک ان کے خاکوں کے بارے پانچ کتب شائع ہو چکی ہیں ۔ جن میں ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف، قافلۂ حدیث اور ہفت اقلیم‘‘ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ قصوری خاندان، میاں فضل حق رحمہ اللہ اور ان کی خدمات، برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ ، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مولانا ابوالکلام آزاد ایک نابغہ روزرگار شخصیت، برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن، ریاض الصالحین کا عربی سے ترجمہ، لشکرِ اسامہ کی روانگی، ڈاکٹر فضل الٰہی کی عربی کتاب کا ترجمہ کے علاوہ دبستانِ حدیث، ارمغانِ حدیث اور اسلام کی بیٹیاں لکھیں ۔ ’’لسان القرآن‘‘، جس کی مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نے دو جلدیں لکھی تھیں کہ وفات پاگئے، تیسری جلد بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مکمل کی۔ اسی طرح چہرۂ نبوت جس کے ابتدائی دو ابواب موالانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نے لکھے تھے، جبکہ باقی گیارہ ابواب مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے لکھ کر مکمل کر کے شائع کی۔ اس کے علاوہ ان کی کتب میں ، اہلِ حدیث کی اوّلیات، گلستانِ حدیث، استقبالیہ و صدارتی خطبات، تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ ، برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، روپڑی علمائے حدیث، مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ ، چمنستانِ حدیث اور تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ نمایاں ہیں ۔ اگرچہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے سیکڑوں علما اور شخصیات پر لکھا ہے اور اس فن میں انھیں مورخ اہلِ حدیث اور ذہبیِ وقت لکھا جاتا ہے، لیکن ان کی تحریروں میں ان کی اپنی کہانی بھی ملتی ہے۔ پھر جب احباب اصرار کیا کرتے کہ اپنی سرگزشت بھی کتابی صورت میں لکھیں تو انھوں نے ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، جسے علمی ادبی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی۔ اپنے بارے میں لکھنا کسی بھی اہلِ قلم کے لیے پل صراط پر سے گزرنا ہوتا ہے۔ بھٹی صاحب نے یہ منزل بھی بڑے خوب صورت انداز میں طے کی۔ اگرچہ آپ بیتی لکھنے کا رواج انیسویں صدی کے آغاز میں ہوا اور اب یہ اردو ادب کی مقبول صنف ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی آپ بیتیاں سامنے آئیں اور مقبول بھی ہوئیں ۔ ’’گزرگئی گزران‘‘ بھی ان میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ بقول پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم: ’’اس آپ بیتی کے جس پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کے کسی پہلو کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور ہر بات سچائی سے لکھ دی ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جو کسی آپ بیتی کو عظمت کا تاج اور بقائے دوام کا خلعت پہنا دیتا ہے۔ بھٹی صاحب نے ’’گزر گئی گزران‘‘ میں تجربات کا تنوع،
Flag Counter