Maktaba Wahhabi

144 - 924
یہ تھا کہ زندگی میں پیش آمدہ جو واقعہ بیان کرتے، اس کے بارے میں جگہ، تاریخ اور وقت کے ساتھ نام بھی صحیح بتاتے۔ وہ تذکرہ نویسی کے دوران میں صرف واقعہ نہیں لکھتے تھے، بلکہ موصوف کے خصائل و اوصاف اور حالات و واقعات لکھتے ہوئے ان کے ساتھ سفر کرتے۔ اس سفر میں اوروں کو بھی ہم سفر بناتے۔ راستے میں جو بھی ملتا اس کو شریکِ سفر کرتے۔ آغاز سے اختتام تک جتنے لوگوں سے واسطہ پڑتا، اساتذہ و تلامذہ، اعزہ و اقارب، ہم مشرب و ہم مکتب اور ہم عصر و ہم سفر سب کو حسبِ ضرورت اپنے خاکہ و تذکرہ میں شامل کرتے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی نگارشات علمی دنیا کا سرمایۂ افتخار اور اہلِ حدیث جماعت پر احسان ہیں ۔ جماعت بھی بلاشبہہ ان کی ممنون ہے اور تادمِ آخر رہے گی۔ مولانا مرحوم نے تذکرہ نگاری کرتے ہوئے گمنام گوشوں سے کچھ ایسے جواہر گراں مایہ تلاش کیے اور پھر انھیں اپنی تحریر کی روشنائی سے زندہ جاوید کر دیا کہ وہ رہتی دنیا تک تاریخ کے صفحات میں تابندہ رہیں گے۔ یہ کام ان ہی کا تھا اور وہ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں حرف حرف کے بدلے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین! مولانا رحمہ اللہ نے اُوروں پر لکھا اور خوب لکھا، بلکہ کچھ نیاز مندوں کی شدید خواہش اور پُر زور اصرار پر اپنی آپ بیتی بھی مرتب کی جو ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے ان کی زندگی ہی میں منصہ شہود پر آئی، جو بذات خود ایک تاریخی دستاویز ہے۔ یہ چار سو چھیاسٹھ صفحات اور ستائیس ابواب پر مشتمل ہے، جس میں ناقابلِ فراموش اور سبق آموز واقعات سمیت زندگی کے تمام حالات و واقعات بیان کر دیے ہیں ۔ ولادت کہاں ہوئی؟ بچپن کہاں اور کیسے گزارا؟ تعلیم کہاں شروع کی اور کن اداروں میں حاصل کی؟ اس دوران میں کن عظیم المرتبت اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا؟ علمی پیاس کہاں سے بجھائی اور روحانی تربیت کہاں سے پائی؟ کن شخصیات نے متاثر کیا اور کن کے حسنِ کردار نے نقش ثبت کیے؟ برصغیر میں اہلِ حدیث نے کب اور کیسے نمو پائی؟ آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس سے لے کر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان تک پیش آمدہ تمام حالات اور خدمت گزار تمام حضرات کے تذکار۔ جماعت اہلِ حدیث، انجمن اہلِ حدیث، آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس، جمعیت علمائے ہند، مجلس احرارِ اسلام، تحریکِ مسجد شہید گنج، خاکسار تحریک، جماعتِ مجاہدین سے تعلق اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سے وابستگی سمیت تمام تر باتیں اور یادیں اپنی خود نوشت و آپ بیتی میں رقم کر دیں ۔ آپ بیتی لکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ’’گزر گئی گزران‘‘ کے آغاز میں حرفِ اوّل لکھتے ہوئے پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم نے لکھا ہے کہ ’’آپ بیتی کی صنف اپنے فن اور اسلوب کے باعث بہت اہمیت کی حامل ہے۔ خود نوشت کا مصنف اگر صداقت شعاری سے حقائق آشنا رہے تو اس کی باطنی واردات، نفسی کیفیات، قلبی احساسات، شخصی جذبات، علمی خیالات، ذہنی مطالعات، ارضی مشاہدات اور نجی حالات ایک کامیاب آپ بیتی کا لوازمہ بن جاتے ہیں ۔‘‘ بلاشبہہ یہ آپ بیتی ان ہی کمالات کا مجموعہ ہے۔ اس میں موصوف نے محرومیوں سے لے کر کامیابیوں تک تمام حالات بلا کم و کاست تحریر کر دیے ہیں اور کہیں بھی خود ستائی، مبالغہ آرائی، خود پسندی، غلط بیانی، غرض مندی، موقع
Flag Counter