Maktaba Wahhabi

145 - 924
شناسی، رنگ آمیزی، سہل نگاری اور دروغ گوئی سے کام لے کر اپنے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ مولانا بھٹی مرحوم نے قریباً اکانوے سال عمر پائی۔ آخری برسوں میں انھیں تھوڑا سا ثقلِ سماعت کا عارضہ لاحق رہا۔ اس کے علاوہ دیگر حواسِ اربعہ بھرپور جوان تھے۔ وہ جوانوں کی طرح حسِ مزاح رکھتے تھے، مگر اسے فحش گوئی سے آلودہ نہیں ہونے دیتے تھے اور نہ کسی زاہد خشک کی خلوت نشینی کا روپ دھارنے دیتے تھے، بلکہ وہ احباب کی مجلس سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے اور اپنے ہم نشینوں کو بھی کسی قسم کی بوریت اور اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتے تھے۔ مجلس آرائی کا فن وہ خوب جانتے تھے اور ان کا یہ کمال انھیں دیگر مصنفین اور تذکرہ نگاروں میں اور بھی ممتاز کرتا اور میرے خیال میں ایسا ہونا بھی چاہیے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’میری عادت تھی کہ میں اکثر و بیشتر ہنسی و مزاح کیا کرتا تھا، اس پر قابو پانے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس شخص کو مزاح پسند نہیں ، اس سے مزاح کرنے سے باز آجاؤں ، لیکن کچھ حد تک میں نے مزاح کی گنجایش ضرور رکھی۔ میری رائے یہ ہے کہ اسے چھوڑنے سے طبیعت میں انقباض پیدا ہوتا ہے اور تکبر کی سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ احباب جانتے ہیں کہ ہمارے ممدوح مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی طبیعت میں نہ انقباض تھا اور نہ کسی قسم کا تکبر و غرور تھا۔ وہ تو میرے جیسے عمر میں چھوٹے اور علم میں کم تر شخص کو بھی اُٹھ کر اور کھلے بازوؤں سے ملتے تھے۔ ان کی ملاقات سے، ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے ساتھ گفتگو سے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ انھوں نے مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہم اللہ سے فیض پایا۔ وہ کبھی مجلس میں کسی تفوق اور تعلّی کا شکار نہیں ہوتے تھے، بلکہ دوستانہ ماحول میں دوستوں کی سی باتیں کرتے تھے۔ ان سے جب بھی فون پر بات ہوئی یا ملاقات ہوئی، انھوں نے ہمیشہ کم یابی اور تشنگی کا اظہار کیا اور ہمیشہ فرماتے کہ ’’یار! ملتے کیوں نہیں ؟ آپ کے ملنے پر بہت سی جماعتی اور دوستانہ گفتگو ہو جاتی ہے۔‘‘ اور یقینا ہوتی بھی تھی۔ میرا اُن سے ۱۹۸۰ء میں تعارف ہوا، جب میں نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی مسجد مبارک میں صبح کا درس قرآنِ مجید شروع کیا، جو چار سال جاری رہا۔ ان دنوں وہاں مولانا فضل الرحمن بن محمد الازہری خطیب تھے اور پروفیسر عبدالقیوم مرحوم مسجد کے مہتمم تھے، جنھیں ۱۹۴۸ء میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث مغربی پاکستان کا پہلا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ اس مسجد میں میرا قیام بطور مدرس یا نائب خطیب کے تھا۔ ان ہی دنوں میں جمعیت طلبہ اہلِ حدیث میں سرگرم اور فعال تھا اور فکری اور تنظیمی طور پر علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ سے وابستہ تھا، جبکہ علمی اور روحانی فیض یابی کے لیے دار الدعوۃ السلفیہ میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے پاس آنا جانا تھا، جہاں میرے راہ و رسم مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، مولانا محمد سلیمان انصاری رحمہ اللہ ، بابا جی علیم ناصری رحمہ اللہ ،
Flag Counter