Maktaba Wahhabi

147 - 924
طبیعت و مزاج اور لباس و خوراک کے بڑے سادہ تھے، بلکہ کھدر کی قمیص اور سوتی تہبند زیب تن کرتے۔ ایک دفعہ ہمارے عزیز دوست رانا محمد شفیق خاں پسروری نے کہا کہ میں نے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی زیارت کرنی ہے۔ ہم دونوں ان سے ملنے دار الدعوۃ السلفیہ شیش محل روڈ گئے، جہاں ’’الاعتصام‘‘ کا دفتر ہے۔ دفتر میں داخل ہوئے تو مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ دروازے کے ساتھ ہی کرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے اخبار پڑھ رہے تھے۔ رانا شفیق صاحب آگے بڑھے اور وہاں موجود مولانا سلیمان رحمہ اللہ اور دیگر سے سلام دعا کی، جبکہ مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ سے مصافحہ نہیں کیا اور آنکھوں کے اشارے سے مجھ سے پوچھا کہ ان میں سے مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ کون ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ وہی سادہ لباس شخص مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ ہیں ، جن سے تم نے مصافحہ نہیں کیا۔ پھر وہ آگے بڑھے اور سلام کیا اور میں نے تعارف کروایا کہ یہ مولانا محمد رفیق پسروری مرحوم کے صاحبزادے ہیں ۔ وہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ مولانا بھٹی مرحوم نے بیان کیا اور لکھا بھی کہ ان کے دادا جی رحمہ اللہ نے ان کی تربیت کی۔ وہ تمام معاملات میں سادگی، برابری اور مساوات کا درس دیتے۔ ایک دفعہ دادا جی رحمہ اللہ نے کچھ رقم دی کہ کپڑے خرید کر لے آؤ۔ میں بازار گیا، اپنے لیے اور چھوٹے بھائی بہنوں کے لیے کپڑے خرید کر لایا، جس کی قیمت تین اور چار آنے گز تھی۔ جبکہ اپنے لیے میں سات آنے گز والا کپڑا لے آیا۔ واپسی پر دادا جی میاں محمد رحمہ اللہ نے کپڑے دیکھے اور تعریف کی کہ تم اچھے اور سستے کپڑے لے کر آئے ہو اور ساتھ ہی ڈانٹا بھی کہ اپنے لیے سات آنے گز کا کپڑا لائے ہو۔ جاؤ اور واپس کرکے اپنے لیے بھی دوسروں کے برابر کا کپڑا لے کر آؤ۔ چنانچہ میں گیا، اسے واپس کرکے اپنے لیے بھی دوسروں کے برابر کا کپڑا لے کر آیا۔ اس بچپن کی ڈانٹ ڈپٹ اور تربیت نے عمر بھر ان کا ساتھ دیا۔ مولانا مرحوم حساب کتاب کے بڑے کھرے تھے، انھوں نے سب کے ساتھ لَین دَین بڑا صاف رکھا۔ قرض لینے سے ہمیشہ گریزاں رہے، زندگی میں کبھی اپنے کسی عزیز اور رشتے دار سے قرض نہیں لیا۔ ان کی زندگی ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ‘‘ کا نمونہ اور عکس تھی۔ وہ چونکہ بلند پایہ لکھاری تھے، ان کی کتابیں طبع ہوتی تھیں ، چنانچہ طابعین وناشرین کے ساتھ بھی ان کا حساب صاف ستھرا رہا۔ ہماری اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ ان کا حساب کتاب آسان کر دے، بلکہ انھیں بغیر حساب کے جنت الفردوس میں داخلہ عطا فرما دے۔ آمین یا رب العالمین مولانا ممدوح خوش مزاج مہمان نواز تھے۔ ان کی رہائش گاہ پر جب بھی حاضری ہوئی حسبِ ضرورت اور حسبِ موسم تواضع کرتے۔ اپنی بیٹھک میں دونوں بازو کھول کر گرم جوشی سے استقبال کرتے اور اس طرح ملتے، جس طرح کوئی مدتوں کا بچھڑا ہوا ملتا ہے۔ ہفتہ عشرہ بعد بھی ملاقات ہوتی تو ایسی ہی گرم جوشی سے ہوتی۔ اپنے چھوٹے بھائی جناب سعید احمد بھٹی کو حکم دیتے کہ فوراً مہمان کی خاطر مدارت کرو اور سعید احمد بھٹی نے بھی خوب برخورداری نبھائی۔ بڑے بھائی اور بڑے بھائی کے مہمانوں کی، حتی المقدور خدمت سر انجام دی۔ اب تو نوجوان حافظ حسان سعید کو بھی خدمت انجام دیتے سرگرم دیکھا گیا۔ ان کی رحلت سے جہاں جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، وہاں
Flag Counter