Maktaba Wahhabi

148 - 924
ان کا خاندان بھی اس عظیم سانحہ سے دو چار ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے ورثا کو صبرِ جمیل سے نوازے اور ان میں مرحوم کا کوئی جانشین پیدا کرے۔ آمین مدیر ’’الاعتصام‘‘ حافظ احمد شاکر نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے مولانا حافظ محمد بھٹوی رحمہ اللہ سے صرف بہائی کا سبق پڑھا تھا، اس لیے انھیں اپنا استاد سمجھتے تھے۔‘‘ اس حوالے سے تو مولانا بھٹی رحمہ اللہ میرے استاد بھائی ہیں ، اس لیے کہ میں نے بھی غالباً ۱۹۷۵ء میں ’’مدرسہ ضیاء السنہ راجہ جنگ‘‘ میں ان سے صرف و نحو کے ابتدائی سبق پڑھے تھے۔ وہاں کا پانی موافق نہ آیا تو پھر جامعہ محمدیہ اوکاڑہ چلا گیا اور وہیں سے ۱۹۷۹ء میں سند فراغت حاصل کی۔ اوکاڑہ سے پہلے کچھ عرصہ ’’مدرسہ محمدیہ رینالہ خورد‘‘ بھی گزارا، مگر درسِ نظامی اور وفاق کی تعلیم جامعہ محمدیہ ہی سے مکمل کی۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ صرف ایک کامیاب تذکرہ نویس اور خاکہ نگار ہی نہ تھے، بلکہ وہ اچھے مدرس، کالم نگار، ریڈیو کے مقرر، ثقہ محقق اور تنظیمی آدمی تھے۔ مولانا رحمہ اللہ نے درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد ’’لکھو کے‘‘ میں کتابیں بھی پڑھائیں ۔ کئی جرائد کی ادارت کی، کئی اخباروں اور رسالوں میں باقاعدہ کالم اور مضامین لکھے۔ ان میں روزانہ، سہ روزہ، ہفت روزہ، ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی اخبارات و رسائل شامل ہیں ۔ فہرست ابن ندیم، حضرت ابوبکر صدیقt اور ریاض الصالحین کے تراجم جبکہ برصغیر میں علمِ فقہ، برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش، برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد اور ۱۰ جلدوں پر مشتمل تاریخ فقہائے ہند، ان کی علمی وجاہت اور تحقیقی ثقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تحریری شکل میں ان کا یہ صدقہ جاریہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ ان شاء اللّٰہ! مولانا بھٹی مرحوم کا خاص امتیاز یہ بھی ہے کہ مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کی فرمایش پرمولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ انھیں آبائی گاؤں چک ۵۳، گ۔ ب سے لائے اور لاہور لا کر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کا ناظم دفتر بنا دیا۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ۱۹۴۸ء میں معرضِ وجود میں آئی اور اس کا نام مرکزی جمعیت اہلِ حدیث مغربی پاکستان تھا۔ اس کے صدر مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ ، سیکرٹری جنرل پروفیسر عبدالقیوم، سیکرٹری مالیات میاں عبدالمجید مالواڈہ رحمہ اللہ اور آفس سیکرٹری یا ناظم دفتر محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تھے۔ میاں عبدالمجید مالواڈہ رحمہ اللہ ، بیرسٹر میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ کے بیٹے تھے۔ اس خاندان نے بھی مسلک اہلِ حدیث کی بڑی خدمت کی۔ ان کی خدمات پر مولانا بھٹی مرحوم نے باقاعدہ کتاب لکھی۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ قیامِ پاکستان کے بعد ضلع فیصل آباد چک ۵۳، گ۔ ب میں جا بسے تھے اور کاشتکاری شروع کر دی تھی۔ اکابرِ ملت نے انھیں وہاں سے اُٹھایا اور کاشتکاری کے بجائے گلستانِ قرآن وحدیث کی آبیاری پر لگا دیا۔ جنھوں نے انتخاب کیا، وہ بھی عظیم تھے اور جن کا انتخاب ہوا، وہ بھی عظیم تھے۔ اللہ تعالیٰ سب مرحومین کی جہودِ طیبہ کو قبول و منظور فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
Flag Counter