Maktaba Wahhabi

150 - 924
پھر کیا تھا خواجہ صاحب رحمہ اللہ جیسا جوہر شناس بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے کمالات کا معتقد ہو گیا اور انھوں نے راقم کو لکھا کہ بھٹی صاحب جس شخص کا خاکہ لکھتے ہیں ، اس کی شخصیت نگاری کا حق ادا کر دیتے ہیں ، میں لاہور آؤں گا تو اکٹھے ان سے ملنے چلیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر خواجہ صاحب رحمہ اللہ اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے درمیان نہایت مخلصانہ روابط قائم ہو گئے۔خواجہ رحمہ اللہ کا کہنا تھا کہ ’’اس دور میں شخصیات پر لکھنے والا بھٹی صاحب سے بہتر اور کوئی نہیں ہے، وہ لکھتے نہیں کارِ مسیحائی فرماتے ہیں ، جسے مردوں کو چلتے پھرتے دیکھنا ہو، وہ بھٹی صاحب کے مضامین پڑھ لے۔ بھٹی صاحب کی خوش قسمتی کہ انھوں نے کیسی کیسی منتخب روزگار شخصیات کو دیکھا، وہ لوگ بھی کچھ کم خوش نصیب نہیں جنھوں نے بھٹی صاحب کے توسط سے ان شخصیات کو قریب سے دیکھا، ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں ۔۔۔۔‘‘ بھٹی صاحب ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ نو عمری میں ہی ملک میں جاری آزادی کی جدوجہد سے دلچسپی ہوگئی۔ پہلی بار ۱۹۳۹ء میں گرفتار ہوئے اور دوسری بار ۱۹۴۶ء میں ۔ لیلائے حریت کے متوالوں میں وہ سب سے کم عمر قیدی تھے، مرچوں والی کوٹھیوں میں رکھے گئے اور ساٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی، ان کے ساتھیوں میں گیانی ذیل سنگھ بھی تھے، جو بعد میں بھارت کے صدر بنے، اس پر کم سن قیدی نے سزا سنانے والے جج سے بڑی معصومیت سے پوچھا: ’’کیا ہماری اور ہمارے بچوں کی شادیاں جیل ہی میں ہوں گی۔۔؟‘‘ گیانی ذیل سنگھ کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ وہ بہت ہی غریب تھا۔ ’’بہت‘‘ کو لمبا کر کے اس پر زور دیتے ہوئے کہتے تھے: مجھ سے بھی زیادہ! ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو حصولِ آزادی کے بعد وہ آرزوؤں کی سر زمین پاکستان میں آگئے، یہاں ان کا رشتہ قلم و قرطاس سے استوار ہوا، وہ مختلف جرائد سے وابستہ رہے۔ انھوں نے مئی ۱۹۵۷ء میں جنگِ آزادی پر صدی بیت جانے کے موقع پر الاعتصام کا ’’۱۸۵۷ء نمبر‘‘ شائع کیا۔ فروری ۱۹۵۶ء میں ’’حجیتِ حدیث نمبر‘‘ اور اسی طرح بعض دوسری اشاعتیں مرتب کیں ۔ جنوری ۱۹۵۸ء میں سہ روزہ ’’منہاج‘‘ جاری کیا، جو اپریل ۱۹۵۹ء تک جاری رہا، اپنے وقت کے نمایاں اخبار روزنامہ ’’امروز‘‘ میں مضمون نگاری کی۔ ۱۹۶۵ء میں ہفت روزہ ’’توحید‘‘ جاری کیا۔ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۶۵ء کو حکومتِ پنجاب کے قائم کردہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ یہ وابستگی ان کی علمی زندگی کے لیے بڑی ثمر آور ثابت ہوئی اور یہاں رہ کر انھوں نے دس جلدوں میں نویں صدی ہجری سے تیرھویں صدی ہجری تک(سلطان غیاث الدین بلبن/ ۶۸۶ھ سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر / ۱۱۱۸ھ کے عہد تک)’’فقہائے ہند‘‘ کا ایک مبسوط تذکرہ مرتب کیا، جو ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ اس کے ساتھ بہ طور مقدمہ انھوں نے ’’برصغیر پاک و ہند میں علمِ فقہ‘‘ پر ایک عمدہ کتاب لکھی، ’’برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش‘‘ تلاش کیے، یہی نہیں کتابیاتی دنیا میں اہلِ اسلام کی اوّلین پیش کش
Flag Counter