Maktaba Wahhabi

151 - 924
ابن الندیم کی ’’الفہرست‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ ’’لسان القرآن‘‘ کی تکمیل کی۔ بائیس سال ادارے کے علمی مجلے ’’ثقافت‘‘ اور ’’المعارف‘‘ کی ادارت کی۔ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کے ساتھ طویل رفاقت کی یادگار ’’ارمغانِ حنیف‘‘ کی صورت میں مرتب کی۔ غرض اس بتیس سالہ وابستگی میں انھوں نے بہت سے علمی کام کیے، جن کا سلسلہ ادارے سے انسلاک کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہا اور انھوں نے برصغیر کی تاریخ و تہذیب سے متعلق متعدد کتب تخلیق کیں ۔ متعدد شخصیات کی سوانح عمریاں لکھیں ۔ ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ اور ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ کے نام سے برصغیر کی بیسیوں علمی، ادبی، سیاسی، تہذیبی شخصیات کے مرقعے رقم کیے۔ ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی بھی لکھی۔ میں نے ان سے ریسرچ سوسائٹی کے دفتر کی نسبت دریافت کیا۔ انھوں نے میرے سراپا کو غور سے دیکھا۔ یہ میرا میٹرک کا زمانہ طالب علمی تھا۔ وہ سرگودھا سے آنے والے نو عمر طالبِ علم سے ریسرچ سوسائٹی کا پتا پوچھنے کا سبب پوچھنے لگے۔۔۔ میں نے بے دھڑک اپنے تحقیقی منصوبے سے آگاہ کر دیا۔ انھوں نے بیٹھنے کے لیے کہا اور تعارف کے بعد کہنے لگے، جن چیزوں کی آپ کو ضرورت ہے، وہ یہاں نہیں ملیں گی، ہو سکتا ہے کسی شخصی کتب خانے میں ہوں ۔ یہ کہہ کر کچھ دیر انھوں نے سوچا اور پھر اپنے جاننے والے کچھ لوگوں کے نام لے کر کہنے لگے آپ کی دلچسپی کی چیزیں ان کے پاس ہو سکتی ہیں ، آپ ان سے ملیں ۔ میں نے غالباً لاہور کے راستوں سے اپنی ناواقفیت اور اپنی اجنبیت کا ذکر کیا ہوگا، اب تک وہ میرے تحقیقی منصوبے سے متاثر ہو چکے اور اس میں خاصی دلچسپی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ کہنے لگے: چلیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اپنی کتابیں سمیٹ کر وہ میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے دفتر سے نکل کر ہم مال روڈ پر آئے اور اس زمانے کی اومنی بس ’والوو‘ کے انتظار میں ، بس اسٹاپ پر کھڑے ہوگئے، وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے جاننے والوں کے پاس لے جاتے رہے اور میں ان سے اپنی دلچسپی کی چیزوں کی نسبت استفسارات کرتا رہا۔ یہ ایک یادگار دوپہر تھی۔ میری دلچسپی کی کتابوں کی جستجو کرتے ہوئے انھوں نے مجھے مال روڈ اور بیگم روڈ پر مختلف مکتبوں کی سیر کروا دی اور بعض مضمون نگاروں اور مصنفوں سے ملوایا یا ملوانے کی ناکام سعی کی۔۔۔ اس کے بعد میں جب بھی لاہور آتا بھٹی صاحب سے ملنے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ ضرور جاتا۔ یہاں میری ملاقات پروفیسر سعید شیخ صاحب سے ہوئی، ان کا مضمون فلسفہ تھا، وہ ان دنوں علامہ اقبال کے خطبات(Reconstruction of Religious Thought in Islam)پر کام کر رہے تھے۔ بعد ازاں خطبات کے نہایت قیمتی حواشی کی صورت میں ان کا یہ کام سامنے آیا۔ دورانِ ملاقات وہ اپنی اس جستجو کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ میری ان دنوں کی دل چسپیوں میں کسی دل چسپی کا اظہار نہیں فرمایا۔ یہاں بھٹی صاحب نے مجھے مجلس ترقی ادب کے ناظم احمد ندیم قاسمی صاحب سے بھی ملوایا۔ وہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی آمد پر ان کے استقبال کے لیے سروقد کھڑے ہو گئے اور بہت تپاک اور گرم جوشی سے ملے۔ میری دلچسپیوں پر بھی بات کی، ان کے پاس آمد و رفت سے پھر مجلس کے دفتر میں بہت سے اصحاب سے ملاقاتیں ہوئیں ، بزمِ اقبال کا دفتر ان دنوں بھی ویران تھا اور اس کا
Flag Counter