Maktaba Wahhabi

152 - 924
چارج احمد ندیم قاسمی صاحب ہی کے پاس تھا۔ جب سراج منیر ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے ڈائریکٹر بن کر آگئے تو ان سے بھی یہیں ملاقاتیں ہوئیں ، انھوں نے مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کے اعزاز میں الحمراء میں ایک یادگار جلسہ کیا۔ میں اس جلسے میں بھی شر یک تھا، اس موقع پر پڑھے جانے والے مقالات بعد ازاں بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مرتب کیے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے توسط سے سب سے زیادہ اور سب سے یادگار ملاقاتیں مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم سے ہوئیں ۔ مولانا پرانی وضع کے ایک یادگارِ زمانہ بزرگ تھے۔ سفید براق ڈاڑھی، آنکھوں پر چشمہ، سر پر قراقلی ٹوپی۔ میں جب بھی انھیں صوفے پر بیٹھے دیکھتا، سامنے دھری چائے کی میز پر چائے کے ساتھ عربی کی بڑی موٹی کتابیں بکھری ہوتی تھیں ، ایسے میں مولانا کسی ضخیم کتاب کے مطالعے میں غرق ہوتے۔ وہ بہت نستعلیق شخصیت کے مالک تھے۔ احتیاط اور رکھ رکھاؤ، ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ان کا دوستانہ تعلق دہائیوں پر محیط تھا، لیکن میں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ان کی بارگاہ میں نہایت مودب دیکھا۔۔۔ میں نے مولانا ندوی رحمہ اللہ سے بہت سی باتیں پوچھیں ، وہ پاکستان میں ندوے کے قافلے کے آخری مسافر تھے۔ میں نے ندوے کی تہذیب کو مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کی شخصیت کے آئینے میں دیکھا، اس قدر کہ مجھ پر ان کی ٹھوس علمی تحقیق کا رُعب قائم ہو گیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ میٹرک کے بعد انٹر اور بی ۔ اے وغیرہ کے مراحل طے کرنے کے بعد میں لاہور آگیا، لیکن اس دوران میں ایک زمانہ بیت چکا تھا مگر بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات میں گرم جوشی برقرار رہی۔ ایم۔ اے کے بعد جن دنوں میں ملازمت کی تلاش میں تھا، ان دنوں کی یاد میں بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ایک نقش شامل ہے۔ ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر میرے اخباری مضامین پڑھ کر مجھے اپنے ایڈیٹوریل بورڈ میں لینا چاہتے تھے، انھوں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو واسطہ بنایا، لیکن شکر ہے یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے میرے انسلاک کے بعد ایک روز بھٹی صاحب رحمہ اللہ اولڈ کیمپس آئے تو انھوں نے ان دنوں کا تذکرہ چھیڑا، میں نے اس پر شعر پڑھا: شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی شکر ہے زندگی تباہ نہ کی انھوں نے بہت لطف لیا، دیر تک داد دیتے رہے۔ جو لوگ اس شعر میں پائی جانے والی رعایت کو سمجھ لیں گے، وہ بھی ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملنا چاہیے، وہ یاد گار زمانہ شخصیت ہیں ، چنانچہ ہم دونوں ایک روز ان سے ملنے گئے، اس روز انھوں نے بہت باتیں کیں ، لطیفے سنائے، اپنی یادیں تازہ کیں ۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے مولانا ظفر علی خان کو دیکھا تھا تو انھوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک سے زائد مواقع پر ان کی تقریر بھی سنی۔ ایک موقع تحریک مسجد شہید گنج کا تھا۔ وہ بار بار اسے کعبہ کی بیٹی کہتے تھے۔ ڈاکٹر رضوی صاحب نے علامہ اقبال سے ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں نے ان کا ذکر سن رکھا تھا، لیکن ملاقات نہیں ہوئی۔ جب ان کا انتقال ہوا تو یہ خبر سنی تھی، میری عمر تیرہ چودہ سال کی تھی، ہم
Flag Counter