Maktaba Wahhabi

153 - 924
اتنا جانتے تھے کہ بہت بڑا شاعرہے۔ ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو اُن کی مذہبی رواداری اور صلح کل کا رویہ تھا۔ وہ خود ایک مسلک اور عقیدے کے آدمی تھے، لیکن ان کے حلقۂ احباب میں تمام مسالک کے لوگ بلکہ غیر مسلم تک شامل تھے اور وہ سب سے اخلاص رکھتے تھے۔ وہ زندگی کو ہنس کھیل کر گزارنے کا فن جانتے تھے۔ میں نے انھیں کبھی افسردہ نہیں دیکھا، وہ دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر خود پہ ہنسنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ مذہب نے ان کی بنیادی شخصیت کی تشکیل کی تھی، لیکن یوں کہ ان سے مل کر مذہب کی وسعتوں کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ راقم کے حال پر ہمیشہ مہربان رہے۔ آخری عمر میں ایک بار نہ جانے انھیں کیا خیال آیا انھوں نے مجھ سے میری تمام تصانیف منگوائیں اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب مجھے ان کی جانب سے میری تصنیفی زندگی پر لکھا ہوا۔ ایک مفصل مضمون موصول ہوا، جس میں انھوں نے ہمارے باہمی تعارف سے لے کر بعد کی عمر تک کے خوش گوار احوال کا تذکرہ کیا اور میری ناچیز تصانیف کا مفصل تذکرہ رقم کیا۔ ایک روز اچانک میرے گھر تشریف لے آئے، خوب چہکے، میرے بچوں سے بھی ملے، اپنی کچھ کتابیں بھی عنایت کیں ۔ آخری زمانے میں انھوں نے اہلِ حدیث کی نسبت سے بہت سی کتابیں لکھیں ، ان میں کچھ کتابیں تو اسی حوالے سے تھیں ، ایک کتاب خود ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے تھی، یہ بھی عنایت کی اور اس پر بڑی محبت سے لکھا: ’’پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی خدمت میں ، اللہ ان کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے، محمد اسحاق بھٹی ۶؍ فروری ۲۰۱۴ء۔‘‘ دوسروں کے لیے خوشیوں کی تمنا کرنے والے بھٹی صاحب رحمہ اللہ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ دعا ہے کہ اللہ انھیں اپنی اخروی منازل میں ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔۔۔۔ آمین! اے ہم نفسان محفلِ ما رفتید ولے نہ از دلِ ما
Flag Counter