Maktaba Wahhabi

165 - 924
لیے کوشاں رہے، نہ لوگوں کو مشرک بنانے کا دھندہ کیا، نہ کسی کو جنت سے نکالنے اور جہنم میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ ان شخصیات میں مولانا داود غزنوی، مولانا اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہم اللہ نمایاں ہیں ۔ مولانا رحمہ اللہ تحریکِ آزادی کے دور میں جوان ہوئے، وہ دور جس میں مولانا آزاد رحمہ اللہ کے ’’الہلال‘‘، ’’البلاغ‘‘، مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ کے ’’ہمدرد‘‘ اور ’’کامریڈ‘‘ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے فلسفہ خودی، مولانا ظفر علی خان ظفر رحمہ اللہ کے ’’زمیندار‘‘ اور شبیر احمد جوش ملیح آبادی رحمہ اللہ کی انقلابی نظموں اور تحریکِ خلافت، تحریکِ عدمِ تعاون اور ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘، جیسی تحریکوں نے ہر درد دل رکھنے والے کو متاثر کیا، ساری قوم استعمار کے آگے سینہ سپر ہوگئی۔ بھلا ایسے حالات میں مولانا بھٹی رحمہ اللہ تحریکِ آزادی وطن سے اپنا دامن کیسے بچا سکتے تھے، آپ نے اپنی ریاست کی ’’پرجا منڈل‘‘ میں شمولیت اختیار کرلی، جس کے صدر اس زمانے میں گیانی ذیل سنگھ جی تھے، جو بعد میں مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، پھر مرکزی حکومت میں وزیرِ داخلہ اور پھر ۱۹۸۲ء سے لے کر ۲۴؍ جولائی ۱۹۸۷ء کے درمیانی وقفے میں ہندوستان کے صدر جمہوریہ بنے، اور اس کے سیکرٹری ہمارے ممدوح مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تھے، اس ’’پرجا منڈل‘‘ کو آزادی کی صبح تک کن کن مصائب سے دوچار ہونا پڑا اور کس مد و جزر سے گزرنا پڑا، اس کی تفصیل مولانا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ میں اپنے بچپن کے دوست اور تحریکِ آزادی کے ہم سفر گیانی ذیل سنگھ کے تذکرے میں بڑی خوب صورتی سے بیان کی ہے۔ مولانا ہجرت کے بعد پاکستان آگئے اور فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں ڈھیسیاں میں پڑاؤ کیا۔ ۱۹۵۱ء میں مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ ریسرچ فیلو کی حیثیت سے جب ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘(لاہور)سے منسلک ہو گئے، ان کی جگہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ’’الاعتصام‘‘ کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ آپ سولہ سال تک اس کے ایڈیٹر رہے، اس دور میں انھیں بے شمار علما و زعما سے میل ملاقات اور گفتگو کے مواقع ملے، جن سے آپ نے خوب استفادہ کیا، اور اس دوران میں آپ نے ’’الاعتصام‘‘ کے کئی نمبر شائع کیے، جن میں فروری ۱۹۵۶ء میں شائع ہونے والا ’’حجیتِ حدیث نمبر‘‘ اور مئی ۱۹۵۷ء میں شائع ہونے والا ’’۱۸۵۷ء نمبر‘‘ قابلِ ذکر ہے، جو جہادِ آزادی کا ایک اہم تحقیقی تذکرہ اور برصغیر کی سیاسی دستاویز ہے، اس کے علاوہ آپ نے عید نمبر اور آئین نمبر وغیرہ کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا تھا۔ اخبار ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر کے متعلق دلچسپ معلومات دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’بڑے سائز کے سولہ صفحات کے اخبار میں خود ہی خاکروب، خود ہی کلرک، خود ہی مینیجر اور خود ہی ایڈیٹر تھا، یعنی ان تمام مناصب پر میں اکیلا قابض تھا۔ الحمد للہ، رب تعالیٰ نے بڑی توفیق عطا فرمائی تھی۔‘‘ اسی دوران میں جنوری ۱۹۵۸ء کو اپنا ذاتی اخبار سہ روزہ ’’منہاج‘‘ جاری کیا، جو اگست ۱۹۵۹ء تک جاری رہا۔ جبکہ روزنامہ ’’امروز‘‘ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں کئی سال تک مضمون نویسی اور کالم نگاری کرتے رہے۔ نیز مشہور صحافی
Flag Counter