Maktaba Wahhabi

166 - 924
جناب مجیب الرحمن شامی کے ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں ایک عرصے تک شخصیات پر سلسلہ تحریر جاری رکھا۔ پھر حالات نے ایک اور پلٹا کھایا تو ۳۰؍ مئی ۱۹۶۵ء کو اخبار ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت سے مستعفی ہو کر چند ماہ حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کے صاحب زادے سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ’’توحید‘‘ جاری کیا، پھر انھوں نے ۱۱؍ ستمبر ۱۹۶۵ء کو اس سے علاحدگی اختیار کرلی۔ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۵ء کو مشہور اسلامی تحقیقی ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ نے بغیر کسی درخواست کے ریسرچ سکالر کی حیثیت سے مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی خدمات حاصل کرلیں ۔ یہ وہ ادارہ ہے جو برصغیر کے معروف محققین کا مرکز تھا۔ جس کا مقصد اسلامی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں کا علمی و تحقیقی مطالعہ کرنا تھا۔ ادارے کے ارکان کے انتخاب میں اس وقت اس امر کا خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ قدیم و جدید علوم پر قدرتِ کاملہ رکھتے ہوں ۔ چنانچہ مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی، مولانا مظہر الدین صدیقی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین، جناب بشیر احمد ڈار، پروفیسر محمد سرور، رئیس احمد جعفری اور شاہد حسین رزاقی رحمہم اللہ جیسے جید علما کا انتخاب کیا گیا۔ خلیفہ عبدالحکیم رحمہ اللہ کے بعد میاں محمد شریف رحمہ اللہ کو نظامت کے فرائض سونپے گئے، اس کے بعد شیخ محمد اکرام رحمہ اللہ نے اس ادارے کی صدارت سنبھالی۔ ۱۹۷۳ء میں پروفیسر محمد سعید اس ادارے کے ناظم مقرر ہوئے، جب کہ کچھ عرصہ ڈاکٹر وحید قریشی رحمہ اللہ بھی اس ادارے کے ناظم رہے۔ اس ادارے کی جانب سے سیکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ جن کا موضوع اسلامی و پاکستانی ثقافت و تہذیب اور تاریخ بر عظیم پاک و ہند ہے۔ یہ ایک نیم سرکاری ادارہ تھا، جس میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو خالص تحقیقی میدان سے واسطہ پڑا۔ ۱۹۹۷ء تک ۳۲ سال اس ادارے میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد پھر آپ نے اپنے گھر میں سکونت اختیار کرلی اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ آخری وقت تک جاری رکھا۔ مولانا رحمہ اللہ نیک طبع، ملن ساز اور ہر دلعزیزانسان تھے۔ ان کی موجودگی سے محفلیں کشتِ زعفران بنی رہتی تھیں ۔ اٹھکھیلیوں اور شگوفوں کا ایک طوفان ہوتا تھا۔ دستِ شفقت بھی ہم سب کے سروں پر ہوتا تھا، وہ اپنی تمام تر ضعیفی کے باوجود بھی ہمارے ساتھ بے تکلف دوستوں کی طرح پیش آتے۔ ان کی گفتگو نہایت سادہ مگر دل نشین اور معلومات افزا ہوتی۔ مختصر اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں ساری بات کہہ جاتے تھے اور وہ باتیں بیان کیں ، جو کسی مضمون، مقالے یا کتاب میں نہیں مل سکتیں ۔ مولانا رحمہ اللہ اسلامی علوم کا سمندر تھے اور چونکہ ایک نقطہ نظر بھی رکھتے تھے، اس لیے اسلامی علوم و فنون کو ایک خاص تعبیر کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ ان کی کوئی کتاب یا تحریر ایسی نہیں ملے گی، جو محض کسی غیر علمی مقصد کے لیے لکھی گئی ہو۔ بے معنی تحریر وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ مولانا رحمہ اللہ کو خراجِ عقیدت کون کیا پیش کرے، ان کا علمی کام اور ان کی شخصیت یہ کام خود کرتی رہے گی۔ ہم تو ان کے جوتوں کی خاک بھی نہیں ، لیکن قدرت کو اپنے اس نمایندہ بندے کی بس اتنی ہی ضرورت تھی اور ان کو واپس بلا لیا گیا جنت الفردوس میں قیام کے لیے
Flag Counter