Maktaba Wahhabi

167 - 924
اور ان کی خدمات کے اجر کے لیے۔ إن شاء اللّٰہ۔ اپنے صحافتی سفر میں مجھے جن نامور شخصیات سے ملاقاتوں اور انٹرویوز کا موقع ملتا رہا، وہ آج سب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ، جن میں نمایاں طور پر نواب زادہ نصراللہ خاں ، مولانا عبدالستار نیازی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا اجمل خاں ، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، مولانا عبدالقادر آزاد، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، مولانا عبدالقادر روپڑی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا ضیاء القاسمی، مولا نا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا اعظم طارق، غلام حسین نجفی، مفتی غلام سرور قادری کے علاوہ مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم بھی شامل تھے۔آج سے ۲۰ برس قبل ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں ان کا انٹرویو کیا تھا، جہاں اس وقت وہ ریسرچ فیلو اور مجلہ ’’المعارف‘‘ کے مدیر تھے۔ میں نے مولانا کو سب سے زیادہ عاجزی والا اور درویش صفت انسان پایا۔ وہ میرے ناناشیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ کے خالہ زاد تھے۔ اس لحاظ سے وہ ہمارے عزیز بھی تھے۔ وہ عاجزانہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ ’’یہ فقیر غزنوی، لکھوی، روپڑی خاندانوں سے لے کر معروف شخصیات کے تذکروں سے مزین ۵۰ ہزار صفحات تحریر کر چکا ہے، جن میں بڑے بڑے خاندانوں کی تاریخ محفوظ کردی ہے، خاندانوں اور شخصیات پر جو معلومات میں نے لکھ دی ہیں ، وہ ان کی اولاد کو بھی شاید معلوم نہ ہوں ۔‘‘ آخری دنوں میں وہ ناشرین اور پبلشرز سے بھی شکوہ کناں نظر آئے اور اکثر کہا کرتے کہ دونوں میں ’’شر‘‘ کی قدر مشترک ہے۔ ان کی یہ کیفیت بتاتی تھی، شاید انھیں اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا تھا، مگر ان کی کتابوں کے ناشر حضرات ماشاء اللہ بہت خوش حال ہیں ، مگر مولانا کے حالات کچھ خاص نہیں بدلے تھے۔ انھیں مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ سے بڑا پیار تھا۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ یار مجھے مولانا لکھوی ہی سے ملا لاؤ، میں نے گاڑی میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو بٹھایا اور مولانا لکھوی رحمہ اللہ کو ملنے اوکاڑہ پہنچ گئے۔ مولانا رحمہ اللہ شدید نقاہت میں تھے، ان کے گھر قدم رکھا تو وہ لیٹے ہوئے تھے، انھیں بتایا کہ لاہور سے اسحاق بھٹی صاحب آئے ہیں تو وہ تکلیف کی وجہ سے کراہ رہے تھے، بڑی نحیف آواز کے ساتھ بولے اور اٹھنے کی کوشش کی کہ میں اپنے دوست کو گلے لگا سکوں ، وہ منظر بڑا جذباتی تھا۔ مولانا لکھوی رحمہ اللہ نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو گلے لگا کر چیخیں مار کر رونا شروع کر دیا اور اسحاق بھٹی، اسحاق بھٹی کہہ کر پکارتے رہے۔ پھر دونوں مرکز الاسلام ’’لکھو کے‘‘ اور ماضی کی یادوں میں گم ہو گئے۔ مولانا لکھوی کو اپنی گھوڑی یاد آگئی اور کہنے لگے اسحاق بھٹی تمھیں وہ گھوڑی یاد ہے ناں ؟ مولانا رحمہ اللہ کے خلا کو پُر کرنے والی شخصیت برصغیر میں مجھے تو دکھائی نہیں دے رہی، پاکستان میں تو یہ خانہ خالی نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوان ادیب اُٹھیں اور اس عظیم علمی نقصان کی تلافی کریں ۔ آج شہرتِ عام عوامی واعظوں اور اشتہاری علما کو تو حاصل ہے، جو چند تقاریر یاد کرکے سٹیج کی زینت بنتے ہیں اور لوگوں کے لیے تفریح طبع اور ذہنی تعیش کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ علمی گہرائی، تحقیق و تدقیق اور ذوقِ تالیف و تصنیف خواص کا
Flag Counter