Maktaba Wahhabi

168 - 924
حصہ ہیں اور بدقسمتی سے عام لوگوں کے لیے اس کی حیثیت بے کار مشغلہ کی رہ گئی ہے۔ دولت، شہرت اور اقتدار، آج جن جن آستانوں پر جبہ و دستار نیلام ہوتے ہیں ، مولانا رحمہ اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہ تھی۔ مولانا رحمہ اللہ سماجی رکھ رکھاؤ کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود دوستوں کی خوشی غمی میں حتی الامکان شریک ہوتے۔ اپنی وفات سے ایک ہفتہ پہلے بیماری کے باوجود محترم ڈاکٹر عبدالغفور راشد کے صاحبزادے کی دعوتِ ولیمہ میں شریک ہوئے، یہ ان کی آخری سماجی سرگرمی ثابت ہوئی، اس تقریب میں سینیٹر پروفیسر ساجد میر، جسٹس(ر)محمد افتخار چوہدری، ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ایم این اے، ملک رشید احمد خاں ایم این اے، سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی سمیت اہم شخصیات موجود تھیں ، مولانا بھٹی رحمہ اللہ ، پروفیسر ساجد میر سے پرجوش انداز سے ملے اور ان کے چہرے پر مسرت کا اظہار ان کی باہمی محبت اور احترام کا پتا دے رہا تھا۔ یہ تقریب اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کر گئی کہ مجھ سمیت بہت سارے احباب کے ساتھ مولانا مرحوم کی یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی ۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو میو ہسپتال لاہور میں ان کی زندگی کی آخری رات کا میں بھی شاہد ہوں ، جب وہ وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ سفرِ حیات کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے، خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے۔ افسوس کہ میرے دامن میں اس معیار کے عمدہ و مزین الفاظ نہیں ، جو ان کو صحیح معنوں میں خراجِ تحسین پیش کر سکیں ۔ بس مختصر یہ ہے کہ مولانا رحمہ اللہ اس دور میں دلوں پر راج کرنے والے شخص تھے، یہ زمانہ ان کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔ حبِ یزداں کا وہ اک استعارہ تھا، جو داستاں ہوگیا، اک ستارہ تھا وہ کہکشاں ہوگیا۔ دل رو رہا ہے، واللہ! غم اس قدر ہے کہ کلیجہ پھٹنے کو ہے۔ اب ڈھونڈو انھیں چراغِ رخِ زیبا لے کر!
Flag Counter