Maktaba Wahhabi

170 - 924
جاتا تھا۔ عجز و انکساری ان کے محاسن کا طرۂ امتیاز تھا۔ مولانا بہت نفیس الطبع، مزاج شناس، چشم ابرو کے اشاروں کو سمجھنے والی شخصیت تھے۔ موجودہ دور میں اگر کوئی اپنے اسلاف کی نشانی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ عالی قدر حضرت مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت کو دیکھ لے۔ کتابوں میں اکثر پڑھا ہو گا کہ اللہ کے نیک بندے کی علامت یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی یاد دل میں تازہ ہو جائے اور علم میں بھی اضافہ ہو، بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو جس نے بھی دیکھا ہو گا، اس کا مشاہدہ کیا ہوگا، … اونچی شخصیت اور علم کا بحر بیکراں سمندر ہونے کے باوجود سادگی، عجز و انکساری اور تقویٰ کی اعلیٰ علامت رہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں اس طرح تشریف فرماتے کہ باہر سے آنے والا کوئی شخص آپ کی امتیازی حیثیت کو شناخت نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی تمام زندگی اس سنت کی پیروی کرتے ہوئے گزار دی۔ زمانہ طالبِ علمی ہی سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی ممتاز اور بلند مرتبہ عطا کیا تھا، لیکن آپ نے ان بلند مرتبوں کے باوجود اپنا تشخص مٹا کر رکھا تھا۔ آپ کی ذات میں سیاسی و مذہبی ہُلڑ بازی جیسی چیزیں نہیں تھیں اور نہ ہی ساری زندگی سیاسی اور مذہبی اقتدار کا نشہ آپ کی ذات کا حصہ بن سکا۔ عہدوں کی پیش کش کے باوجود آپ عہدوں اور مرتبوں کی بندر بانٹ کی دلدل کا حصہ کبھی نہ بنے۔ راقم نے ایک مرتبہ ان سے مذہبی عہدوں کے حوالے سے استفسار کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’میرا کامل ایمان و یقین ہے کہ دنیاوی، سیاسی اور مذہبی مرتبے اور عہدے انسان کو اصل منزل سے ہٹا دیتے ہیں ، بظاہر کام دین کا ہوتا ہے مگر حقیقتِ حال کرّو فر، دکھاوا، ظاہری ٹھاٹھ باٹھ اور دنیاداری، دین کا لبادہ اوڑھ کر کام دنیاداروں والے، یہ کسی بندۂ مومن کی شان نہیں ہو سکتی۔‘‘ راقم نے بھٹی صاحب کی روح میں ایک اضطراب دیکھا تھا، وہ ایک مستقل مزاج اور ٹھہری ہوئی شخصیت کے مالک تھے، ان کی گفتگو ہیجان، غصے اور غضب سے خالی تھی۔ وہ فرقہ واریت کی فتنہ گری سے کوسوں دور تھے۔ نفرت اس پاک دل و پاک باز شخص کے جذبہ و احساس میں کبھی گھر نہ کر سکی۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی تھے، ان کی زبان نے کبھی زہر افشانی نہ کی۔ ختم نبوت کی تحریک ان کی روح میں رچی بسی تھی اور وہ ساری زندگی اس کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ حقیقت میں ان کی زندگی ایک مجاہدانہ زندگی تھی۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مشکل اور طویل بات کو عجیب طریقے سے آسان زبان میں پیش کرنے میں طاق تھے، کسی بھی موضوع کا خلاصہ نکال کر قارئین کے سامنے رکھ دینے پر عجیب قدرت رکھتے تھے، ان کا سینہ واقعی بے بہا یادوں کا خزینہ تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے حافظہ بھی بلا کا عطا کیا ہوا تھا۔ وہ بلاشبہہ اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ اور انجمن کا درجہ رکھتے تھے۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا قلم وقرطاس کا سلسلہ بڑا طویل ہے۔ ہم ان کی علمی و فکری اور تاریخی داستانوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے اور یہ یقینا علم کی صورت میں ان کے لیے ایک صدقہ جاریہ بنے گا۔
Flag Counter