Maktaba Wahhabi

194 - 924
جن دنوں مولانا مودودی رحمہ اللہ اچھرہ رہایش پذیر ہوئے، ان دنوں بھٹی صاحب رحمہ اللہ نصر اللہ خاں عزیز رحمہ اللہ کے ہمراہ ان سے ملنے گئے تو مولانا رحمہ اللہ نے اس صبح گوالے سے پیش آنے والا واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ مولانا رحمہ اللہ پر خاکہ لکھ رہا ہوں ، لیکن لطیفہ نوشتنی نہیں ، صرف گفتنی ہے، چنانچہ ہمیں بھی سنایا۔ ملاقات کے آخر میں ہم نے کتابوں کا انتخاب کیا، جو انھوں نے اپنے نام پر آدھی قیمت میں لے کر دیں ۔ بعد ازاں ان سے ملاقات رہی۔ اکثر مکتبہ سلفیہ کے حافظ احمد شاکر صاحب کے ہاں انتہائی لذیذ کھانے پر۔ جہاں کھانا اور باتیں دونوں ہی پر لطف ہوتیں ۔ دو سال قبل وحید چودھری صاحب کے ہاں شامی صاحب اور لیاقت بلوچ موجود تھے۔ اس دن جماعت کا یومِ تاسیس تھا۔ میں نے شامی صاحب کو بتایا کہ پہلے اجتماع کے شرکا میں سے واحد بھٹی صاحب زندہ ہیں ۔ اس رات شامی صاحب نے اپنے پروگرام میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا انٹرویو کیا۔۔۔۔ بعد میں ملاقات میں اس انٹرویو کے ذکر پر پوری تفصیل سنائی، جو انٹرویو میں نشر نہ ہو سکی تھی۔ ایک بار عمرے کے سفر کے دوران میں جدہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ اتفاق سے ڈاکٹر خورشید رضوی اور مہر اشفاق لالی بھی آئے ہوئے تھے۔ دس بارہ دوست بھی تھے۔ طویل نشست ہوئی، جو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی گفتگو پر محیط تھی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب(لاہور)اہتمام کے ساتھ ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ آخری ملاقات میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر بھی تھے۔ اس نشست کی کچھ تصاویر مجھے عامر خورشید نے بھٹی صاحب کی وفات کے بعد بھجوائیں ۔ ۹۱ سال کی عمر تک حسِ مزاح اور یادداشت برقرار رہی۔ ایک ملاقات میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ سے ملاقات کی تفصیل تاریخ وار بیان کی۔ ۷۵ سال پہلے کی تفصیل اس طرح سناتے تھے، جیسے گذشتہ ہفتے کی بات ہو۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ کی رہایش، کمرے میں فرنیچر، ان کے لباس اور گفتگو کی تفصیلات من و عن یاد تھیں ۔ کہنے لگے کہ انھوں نے لیاقت علی خاں کا ذکر کیا تو ’’ق‘‘ پر زبر سے کیا، جس سے میں نے شرافت، عبادت، دیانت جیسے الفاظ کا تلفظ درست کیا۔ سید داود غزنوی رحمہ اللہ پر ان کا خاکہ بھرپور ہے۔ ان کے ساتھ کافی عرصہ گزارا۔ سفروحضر میں ان کے ساتھ رہے۔ان سے بہت متاثر تھے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ سید صاحب رحمہ اللہ جیسے خوبصورت ذہین عالم اور معاملہ فہم لوگ کم ہی ہوں گے۔ سیاسی شعور نہایت پختہ تھا۔ ایک بار الیکشن کے موقع پر اہلِ حدیث حضرات نے جماعتی طور پر الیکشن میں بہت سی نشستوں پر حصہ لینے کا کہا تو کہنے لگے کہ جماعتی طور پر الیکشن ہر گز نہ جیت سکیں گے، کیوں کہ ہر حلقے میں دو چار ہزار ووٹ ملیں گے۔۔۔۔۔ یہی المیہ بعدمیں جماعتِ اسلامی کے ساتھ پیش آیا کہ دینی جماعتوں کا ووٹ سارے ملک میں ہے، لیکن اتنا نہیں کہ جتوا سکے۔سید داود غزنوی صاحب رحمہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ دن میں دو اوقات ہیں ، جب میں خود کو بادشاہ تصور کرتا ہوں ۔ ایک فجر کے بعد، دوسرا
Flag Counter