Maktaba Wahhabi

195 - 924
مغرب کے بعد۔ اس وقت میں ’’حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ کا ایک ہزار بار ورد کرتا ہوں ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ پر خاکہ خاصے کی چیز ہے۔ ان کی شخصیت کا جو احاطہ انھوں نے خاکے میں کیا ہے، کسی کتاب میں اتنا مکمل نہیں ہے۔ ان کی انکساری، سادگی، مہمان نوازی، تقریر، ادب شناسی، انگریز دشمنی؛ سب خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے۔ پہلی ملاقات کا تذکرہ جب وہ ایک پیغام لے کر ملتان گئے، کس طرح انھوں نے پیار اور محبت سے استقبال کیا، باوجود کم عمری کے چارپائی پر سرہانے کی طرف بٹھایا، خود پائنتی پر بیٹھے۔ گھڑے سے ٹھنڈا پانی لے کر شکر ملا کر شربت پلایا۔ کس طرح مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے نوجوان کی بدتمیزی پر سر پر ٹوپی پہننا چھوڑی۔ انگریز کو دیس سے نکالنے پر یکسوئی، جدوجہد اور قید و بند کا ذکر۔ ایک جلسے میں انگریز کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں کا اظہار، تقریر کے دوران میں کُرتے کے بازو اوپر کر کے سٹیج پر آگے جھک کر دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، گویا تالاب سے پانی باہر پھینک رہے ہوں اور ساتھ ہی پنجابی کا شعر پڑھا: جے ہیر سمندروں پار ہووے بُکّاں نال سمندر نوں چھٹ سٹاں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے کافی عرصہ وابستہ رہے۔ ادارے کے بانی ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم رحمہ اللہ ، جنھوں نے اپنی ہندوستان کی جائیداد کے عوض یہ جگہ لے کر وقف بنایا اور پہلے سربراہ رہے، ان کا طویل خاکہ لکھا۔ ڈاکٹر خلیفہ صاحب رحمہ اللہ فلسفی اور ماہر اقبالیات تھے۔ علامہ صاحب رحمہ اللہ کے خطبات کو سمجھنے کے لیے ’’فکرِ اقبال‘‘ ان کی ایک بہترین کتاب ہے، جبکہ’’ تشبیہاتِ رومی‘‘ مولانا روم رحمہ اللہ کی مثنوی سمجھنے کے لیے بنیادی کتاب ہے۔ جعفر شاہ پھلواروی رحمہ اللہ بھی ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ رہے، کثیر کتابوں کے مصنف تھے، کپور تھلہ کی جامع مسجد میں خطیب رہے۔ یہ شان دار مسجد راجہ کپور تھلہ نے نواب بہاول پور کے تعاون سے بنائی تھی۔ راجہ خود پڑھے لکھے شخص تھے۔ عربی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی جانتے تھے۔ انھوں نے خطیب کے لیے خود انٹرویو کیے اور جعفر شاہ پھلواروی رحمہ اللہ کا انتخاب کیا۔ پھلواروی صاحب دراز قامت اور وجیہ شخص تھے۔ ایوب خاں کی ادارے کے دورے کی ایک تصویر چھپی تھی، جس میں سارے کارکنان حاضر تھے۔ تصویر میں نظر ایوب خاں اور جعفر شاہ پھلواروی پر ٹکتی ہے کہ کون بڑھ کر ہے۔بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر شاندار انگریزی سوٹ، ٹائی اور پینٹ پہنا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں لکھا کہ کس طرح وہ مثنوی پڑھتے ہوئے سماں باندھ دیا کرتے تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ مثنوی کے اس شعر کا اکثر تکرار کرتے: کاش کہ ہستی زبانے داشتے تازہستاں پردہ ہا برداشتے میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات کا احوال لکھا ہے، جو سید داود غزنوی کے ساتھ ہوئی۔ کس طرح
Flag Counter