Maktaba Wahhabi

196 - 924
قصوری صاحب، غزنوی صاحب کا احترام کرتے تھے اور کس طرح پہلی بار پر تکلف چائے اور لوازمات ایک ٹرالی میں پیش کیے گئے۔ کہتے ہیں کہ میں گاؤں سے آیا تھا، میرے لیے یہ عجیب اور دل چسپ بات تھی۔ ساری چیزیں بے پناہ قوتِ مشاہدہ کی دلیل ہیں ۔ جس سادگی اور بے تکلفی سے اظہار کرتے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی احساسِ کمتری کا شکار نہ تھے۔ مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کے ساتھ طویل عرصہ رہے، انھیں اپنا استاد مانتے تھے۔ ندوی صاحب رحمہ اللہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ اردو لکھنؤ میں رہ کر سیکھی، قرآن و حدیث کے علاوہ فلسفے سے ان کی دل چسپی تھی۔ مسلمان فلاسفہ پر ان کی تصانیف معرکہ آرا ہیں ۔ نو عمری میں ’’سراج البیان‘‘ کے نام سے تفسیر لکھی، جس میں سمجھانے کا اپنا انداز ہے۔ مثلاً یہ کہ ’’گناہ ایک عارضی چیز ہے۔‘‘ ایک توبہ کی مار ہے۔مستقل وجود نیکی کا ہے۔ آج کل تقریباً نایاب ہے۔ مکتبہ سلفیہ کے حماد شاکر از سرِ نو چھاپنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ ندوی صاحب رحمہ اللہ پر ان کی مستقل تصنیف ’’ارمغانِ حنیف‘‘ کتابی شکل میں ہے، جس میں ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ باوجود شاگردی کے، بے تکلفی بھی تھی۔ ایک بار ندوی صاحب رحمہ اللہ نے سکھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو خودد ہی نیلی پگڑی باندھ کر سکھ کا روپ دھار کے ریسٹورنٹ میں ملاقات کی اورندوی صاحب رحمہ اللہ نہ پہچان سکے۔ ندوی صاحب رحمہ اللہ فلسفے کے ماہر تھے۔ قرآن اور حدیث کی شرح میں نئے زاویوں سے بحث کرتے تھے۔ کتاب میں مشہور حدیث:((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِا لنِّیَّاتِ))پر خوبصورت بحث ہے کہ اس میں جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا۔ بھٹی صاحب نے غالباً چالیس سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں ۔ ابن ندیم کی ’’الفہرست‘‘ کا اردو ترجمہ کیا، جس کا خاص طور پر ذکر کرتے تھے۔ مولانا حنیف ندوی صاحب رحمہ اللہ ’’چہرۂ نبوت۔۔۔ قرآن کے آئینہ میں ‘‘ کے بیس باب مکمل کر پائے تھے کہ وفات پا گئے۔ بھٹی صاحب نے مزید دس باب لکھ کر اسے مکمل کیا۔ عربی لغت پر بھی ندوی صاحب رحمہ اللہ کے بعد کام کرتے رہے، لیکن مکمل نہ کر سکے۔ حسِ مزاح آخر تک قائم رہی۔ مکتبہ سلفیہ والے ہر رمضان میں افطاری کا بندوست کرتے ہیں ۔ وہاں اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہو جاتی۔ گذشتہ افطاری میں وہاں پہنچا تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ موجود تھے۔ انھوں نے بڑے پیار سے معانقہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے کہ آپ سے رمضان ہی میں ملاقات ہوتی ہے۔ اگر تین چار سال رمضان نہ آئے تو کیا ملاقات ہی نہ ہوگی؟ جنازے پر کوئی قریبی عزیز کہہ رہے تھے کہ ان کا دائیں ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی ایسے پیوستہ تھی جیسے قلم پکڑا ہوا ہو۔ بے شک عمر بھر قلم کا حق ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ ع خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
Flag Counter