Maktaba Wahhabi

198 - 924
کانفرنس کے دوران میں دو تین مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس مسلم لیگ ہال منٹگمری بازار میں منعقد ہوئے۔ آج کل تو یہ ہال عمارت کی شکستہ حالی کے سبب اجڑ چکا ہے۔ یاد رہے مولانا داود غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ کے زمانے میں منعقد ہونے والی مرکزی کانفرنسوں میں مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کا انعقاد لازمی ہوتا تھا۔ شوریٰ میں کیے جانے والے فیصلے اور آیندہ کے پروگرام کو کھلے اجلاسوں میں سامعین کو سنائے جاتے، جن سے جماعتی کارکردگی، تنظیمی نوعیت اور حالاتِ حاضرہ کے مطابق قراردادوں کو سراہا جاتا۔ بعض کانفرنسوں کی قراردادوں سے تو ملکی سیاست میں ایک ہلچل پیدا ہو جاتی اور ہمارے اکابر کی سیاسی و فکری بصیرت سے استفادہ کیا جاتا۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ کانفرنس سے ایک روز قبل تشریف لے آتے اور مختلف شعبوں کا بغور جائزہ لے کر اصلاح بھی فرماتے۔ چناں چہ جمعرات کے روز عصر کے بعد جب مولانا غزنوی رحمہ اللہ پنڈال میں تشریف لائے تو ان کے ہمراہ ایڈیٹر ’’الاعتصام‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی تھے۔ پنڈال کمیٹی نے ان کا استقبال کیا۔ میں بھی والد صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ پنڈال میں موجود تھا۔ پنڈال میں سامعین کے آنے جانے کے لیے اسٹیج کے سامنے لمبا راستہ بنایا گیا تھا، مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے اصلاح فرماتے ہوئے کہا کہ اسٹیج کے دائیں اور بائیں دو راستے بنائے جائیں ، اسٹیج کے سامنے سامعین کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جائے۔ چنانچہ کارکنان نے فوری طور پر یہ تبدیلی کر دی۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی تو میں قبل ازیں تین چار مرتبہ زیارت کر چکا تھا، لیکن بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو پہلی مرتبہ دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا۔ جوان رعنا، سر پر سیاہ قراقلی ٹوپی، ابو الکلامی ڈاڑھی کے ساتھ بڑی بڑی مونچھیں ، سفید کرتا، پاجامے کے اوپر سیاہ واسکٹ میں ملبوس ان کی بانکی شخصیت انتہائی متاثر کن نظر آئی۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب آتش جوان تھی، مگر برسوں سے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی درویشی اور عجز و انکساری کے ساتھ ساتھ سادہ طرزِ زندگی کو دیکھ کر ہمیں بڑا رشک آتا۔ کانفرنس کے آخری روز اتوار کی صبح جامعہ سلفیہ کی سنگِ بنیادکی تقریب تک ان سے ایک دو مزید ملاقاتیں ہو گئیں ، جو آیندہ کے لیے میل جول کا سبب بنیں اور رفتہ رفتہ باہمی دوستی، محبت اور دینی مسلکی اخوت میں تبدیل ہوگئیں ۔ میرا اگرچہ طالبِ علمی اور لڑکپن کا دور تھا، لیکن والد صاحب رحمہ اللہ کی جماعتی سرگرمیوں کے اثرات شروع دن سے مجھ پر بھی رہے۔ للہیت اور ہر دل عزیزی کے باعث علما ان کی بڑی قدر کرتے، وہ بھی علما و صلحا کی خدمت کرکے عجب فرحت سے سرشار رہتے۔ والدہ مرحومہ نے بھی ان حضرات کی مہمان نوازی میں اپنے نیک خاوند کا پورا پورا ساتھ دیا۔ رب ارحمھما کما ربیاني صغیرا۔ غالباً ۱۹۵۷ء میں مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کے ایما پر اور حضرت حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمہ اللہ کی تجویز پر شہر کے اہلِ حدیث نوجوانوں کی تنظیم ’’شبانِ اہلِ حدیث‘‘ کے نام سے تشکیل دی گئی۔ ابتدائی طور پر ہمارے رفقا میاں حبیب اللہ اکاؤنٹنٹ جامعہ سلفیہ، ٹیچر لائل پور کاٹن ملز ہائی سکول، میاں عبدالکریم(جو بعد میں جماعتِ اسلامی میں چلے گئے اور آج تک اس سے وابستہ ہیں )، حکیم عبدالستار مرحوم، حاجی محمد یوسف مربّہ والے، حاجی عبدالقادر مربّہ والے،
Flag Counter