Maktaba Wahhabi

203 - 924
’’چھٹیاں ‘‘ منا رہے تھے۔ ادارے کی ملازمت کے دنوں میں سراج منیر صاحب کے کہنے پر آپ نے یہ مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جبکہ ’’ارمغانِ حنیف‘‘ بھٹی صاحب کی ملازمت کے دنوں ہی میں ادارہ شائع کر چکا تھا، جو مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کے بارے میں بہت عمدہ کتاب تھی۔ بھٹی صاحب نے ہلکا سا انکار کیا، مگر میرے اصرار کے سامنے ہار گئے۔ کچھ اشرف جاوید صاحب نے بھی میرا ساتھ دیا اور انھوں نے کچھ مسودے میرے حوالے کر دیے اور یوں ان کی پہلی کتاب ’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘ منظرِ عام پر آئی۔ میں بتا چکا ہوں کہ ان دنوں ’’آتش کو جوانی چڑھی ہوئی تھی‘‘ اور کام کا بہت شوق تھا۔ اس کتاب کا ٹائٹل میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ حکومتِ ہند کی تاج محل آگرہ کے بارے میں چھپی ہوئی ایک کتاب میرے پاس موجود تھی، جس میں تاج محل کی ایک خوبصورت تصویر بھی شامل تھی،جو کتاب کے حسبِ حال تھی۔ یعنی ’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘۔ اس کتاب میں اکیس شخصیات کے خاکے شامل کیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء میں اس کتاب کا پہلا اِڈیشن منظرِ عام پر آیا اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ احباب نے اسے بہت شوق سے پڑھا۔ بلاشبہہ بھٹی صاحب کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہو رہا تھا، جس میں بہت زیادہ محبتیں اور کامرانیاں بازو وا کیے ان کی منتظر تھیں ۔ ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ تمام مکاتبِ فکر میں مقبول ہوئی، اس میں اہلِ حدیث اور غیر اہلِ حدیث شخصیات کا تذکرہ تھا۔ جبکہ ایک غیر مسلم شخصیت گیانی ذیل سنگھ بھی اس میں شامل تھے۔ گیانی ذیل سنگھ، اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے بچپن کے دوست تھے اور تحریکِ آزادی میں علاقائی سطح پر دونوں مل کر جدوجہد کرنے میں شریک رہے تھے۔ بعد میں ذیل سنگھ بھارت کے صدر کے عہدے تک پہنچے۔ انھوں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ہمیشہ یاد رکھا اور ان کو ہندوستان آنے کی دعوت بھی دی، مگر بھٹی صاحب رحمہ اللہ نہ جا سکے۔ ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ کے بعد اس سلسلے کی دوسری کتاب ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ شائع ہوئی۔ حسبِ سابق اس کتاب کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ اس میں انیس شخصیات شامل تھیں ۔ بھٹی صاحب کا منفرد اسلوبِ تحریر ان دونوں کتب میں اپنے عروج پر تھا۔ آسان اور شگفتہ اندازِ تحریر قاری کا دل مول لیتا۔ اس کتاب میں انھوں نے مرحومین کے ساتھ چند زندہ شخصیات کے تذکرے کو بھی شامل کیا۔ ان دو کتب کے شائع ہونے کے ساتھ ہی ’’مارکیٹ‘‘ میں آپ کے مضامین کی طلب اور انتظار سوار ہو گیا۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کی ملازمت کے دور میں آپ ایک مخصوص حلقے میں محدود ہو کر رہ گئے تھے اور دائرہ کار بھی محدود تھا۔ ادارہ ثقافت سے نکل کرگوشہ نشینی اختیار کرنے کو تھے کہ ان کتب کی صورت میں آپ جیسے عوام میں آ گئے۔ پاکستان بھر سے عوام اور خواص آپ سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ آپ دوسرے تیسرے روز ساندے سے نکلتے اور مکتبہ قدوسیہ آ جاتے۔ دو، تین گھنٹے یہاں بیٹھتے، لوگ آتے، آپ کی باتیں سنتے، فیض یاب ہوتے۔یعنی اک چشمۂ
Flag Counter