Maktaba Wahhabi

204 - 924
فیض جو پوری آب و تاب سے رواں تھا۔ آپ رحمہ اللہ کی مجلس اتنی دلچسپ ہوتی کہ گمان نہ ہوتا تھا کہ ستر سالہ بزرگ کے ساتھ بیٹھے ہیں یا کسی بیچ عمر کے ساتھ۔ عمر فاروق قدوسی میرے چھوٹے بھائی ہیں ۔ ان کے ساتھ آپ کا خاص پیار تھا۔ کبھی بور بھی ہوتے تو مکتبے پر آجاتے اور کہتے: ’’یار عمر! کل سے لطیفہ آیا ہوا ہے، صرف آپ کو سنانے کے لیے آیا ہوں ‘‘ اور پھر گفتنی نا گفتنی کا سلسلہ چلتا رہتا۔ اب بھٹی صاحب کا ایک ’’نیا حلقہ احباب‘‘ تشکیل پا رہا تھا۔ ایک روز مجھے کہنے لگے کہ ’’یار ابوبکر میری بیوی کہتی ہے کہ ان لڑکوں کا ساتھ نہ چھوڑنا، جب سے ان سے تعلق بنا ہے، تمام معاملات میں برکت آ گئی ہے۔‘‘ میرا قہقہہ بلند تر تھا۔ کہ لو بھائی! ہم بھی برکت والے ’’بابا جی‘‘ بن گئے۔ حالانکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ ان کا قلم اتنا جان دار تھا اور لکھا اس قدر شان دار کہ ہر سو دھوم مچا رہا تھا۔ انہی دنوں میں نے ان سے کہا کہ مختلف مکاتب ہائے فکر کے بزرگوں کے بارے میں آپ کے تحریر کردہ خاکے شائع کرنا ہمارا اصل مقصد نہیں تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ برصغیر کے اہلِ حدیث کی جامع اور مبسوط تاریخ مرتب کی جائے کہ یہ میرے والد مولانا عبدالخالق قدوسی مرحوم کا ذوق اور شوق تھا۔ انھوں نے اس پر ایک قدم اُٹھایا تھا کہ اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ مشاورت بھی ہوتی رہی اور معاملات بھی اپنی درست سمت میں طے ہوتے رہے۔ ان ہی دنوں ہمارے ایک دوست اور برادر بزرگ عارف جاوید محمدی اس کہانی میں آ شامل ہوئے۔ عارف جاوید صاحب کویت ہوتے ہیں ۔ میرے والد محترم رحمہ اللہ کے ساتھ بھی ان کا خاص پیار تھا۔ میرے والد رحمہ اللہ پاکستان سے باہر ایک ہی سفر کر سکے تھے اور وہ کویت کا تھا۔ وہ جمعیت اہلِ حدیث کے کسی کام کے لیے گئے تھے اور کام بھی عارف جاوید صاحب کے ادارے جمعیت احیاء التراث سے متعلق تھا۔ عارف جاوید صاحب اپنے بزرگوں اور تاریخ اہلِ حدیث کے متعلق بہت ذوق اور شوق کے حامل شخصیت ہیں ۔ آپ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے پاس پہنچتے ہیں اور ان ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ جن کے لیے میں چند برس قبل مولانا کے دولت کدے پہ حاضر ہوا تھا، اور یوں ایک مستقل معاملہ طے پا گیا۔ عارف صاحب نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے بہت سے ’’ذاتی معاملات‘‘ اپنے ذمے لے لیے اور بہت حد تک ان کو روز مرہ اُمور کی فکر سے آزاد کر دیا۔ اس ’’آزاد فکری‘‘ نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے قلم کو تیز سے بھی تیز کر دیا اور تاریخ اہلِ حدیث کے حوالے سے کتنے ہی شاہ کار منظرِ عام پر آئے۔ میرے والد محترم رحمہ اللہ نے ’’تاریخ اہلِ حدیث‘‘ پر لکھنے کا جو ارادہ باندھا تھا، اس کا ایک خاکہ لکھا تھا، جس میں ہر صدی کی بالترتیب ابواب بندی کی تھی کہ اس ترتیب سے لکھا جائے گا۔ جناب اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا انداز اور اسلوب اور سوچ الگ تھی، ان سے طے ہوا کہ مختلف میدانوں میں اہلِ حدیث حضرات کی کاوشوں اور اُن کے ذاتی حالات کو قلم بند کیا جائے، اس میں تاریخ اور تاریخی واقعات کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ ہو جائے گا۔ عارف جاوید صاحب نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے لکھوانے کی ذمے داری اٹھائی، میں نے شائع کرنے کی۔ چنانچہ اس سلسلے کی پہلی کتاب منظرِ عام پر
Flag Counter