Maktaba Wahhabi

225 - 924
حال ہے؟ نہ ان کاآنا ہوانہ میرا جانا ہوا، ان کی مصروفیات تو ویسی ہی ہوں گی۔ چند لمحات خاموشی میں گزر گئے۔ مولانا اسحاق بھٹی ہی نے اس سکوت کو توڑا، چائے کی آواز دی، تھوڑی ہی دیر میں چائے لوازمات سمیت آگئی۔ چائے انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے کپ میں ڈالی اور میرے آگے رکھی اور فرمانے لگے کہ اس وقت تکلف نہ کریں جو آپ کو پسند ہو لیجیے، چائے بھی اور آجائے گی۔ سردی ہے اور اتنی دور سے سفر کر کے آئے ہیں ، میں ناشتہ کرکے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، انھوں نے مجھ سے زیادہ ہی تکلف فرمایا اور ’’لوازمات‘‘ کا وافر حصہ زبردستی کھانے پر مجبور کر دیا۔ چائے کا وقت تو تکرار و اصرار میں گزر گیا اور کوئی بات چیت نہ ہوئی۔ چائے سے فراغت کے بعد گویا ہوئے: کہیے کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا: ایک کتاب دیکھنے کو ملی ہے، جس کی نشاندہی ابا جی( رحمہ اللہ )نے کی ہے۔ میری بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ فرمانے لگے: کونسی کتاب ہے، جو مجھ تک آپ کولے آئی؟ میں نے عرض کیا: وہ کتاب ہے: ’’مرزائیت نئے زاویوں سے‘‘۔ میں اسی سلسلے میں یہاں حاضر ہوا ہوں ۔ بڑے دھیمے انداز میں فرمایا: یہ کتاب میں نے تو نہیں لکھی۔ عرض کیا: جی مجھے علم ہے۔ فرمانے لگے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ میرے پاس نہیں آئے، بلکہ کتاب کے مصنف کو ملنے آئے ہیں ۔ میں نے کہا: جی ہاں سچی بات تو یہی ہے، لیکن شاید، اسی بہانے اﷲ نے آپ کی زیارت کروانا تھی اور مجھے اس حسنِ اتفاق پر اپنے اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور ابا جی( رحمہ اللہ )بھی اس رابطے پر بہت خوش ہوئے تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مجھے طالب و مطلوب کے درمیان زیادہ دیر حائل نہیں رہنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا: ایسی تو کوئی بات نہیں ، اب تو آپ بھی مطلوب ہی ہیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اُٹھے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ پانچ سات منٹ بعد واپس تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے اپنی کرسی پر برا جمان ہو گئے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ مولانا کے بارے میں معلوم کرکے آئے ہوں گے، اسی اندازے کے مطابق میں نے پوچھا: مولانا تشریف لے آئے؟بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ پہلو بدلا اور فرمایا: ابھی نہیں ، کچھ دیر بعد پتا چلے گا۔ آپ یہ فرمائیں ، کتاب لائے ہیں ؟ عرض کیا: جی ہاں ! یہ رہی کتاب۔ میں نے کتاب بیگ سے نکال کر پیش کر دی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کتاب میرے ہاتھ سے پکڑی اور دیکھنے لگے۔ کتاب دیکھنے کے دوران میں مسکراتے بھی رہے اور میری طرف بھی دیکھتے رہے۔ آ دھی سے زیادہ کتاب دیکھ کر مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’لگتا ہے کتاب کو آپ نے بڑی توجہ اور لگن سے پڑھا ہے۔ یقینا مولانا محترم آپ کو شائع کرنے کی اجازت دے دیں گے، میں آپ کی بھرپور معاونت کروں گا۔‘‘ میں نے عرض کیا: بڑی مہربانی، ایک کام اور بھی کروانا ہے، پوچھا: وہ کیا؟ میں نے عرض کیا: یہ کتاب آپ نے دیکھی ہے؟ اس کے جن حصوں پر نشانات ہیں ، انھیں ملاحظہ فرمائیں ۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کتاب کو دوبارہ دیکھنا شروع کیا، وہ ان صفحات کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور میں شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نامعلوم اب ان کا رد عمل کیا ہو؟
Flag Counter