Maktaba Wahhabi

253 - 924
دیا۔ لیکن تنگی اور بیماری کے باوجود حضرت ابو ہریرہt کی طرح کسی کے سامنے شکوہ کیا نہ ہاتھ پھیلایا۔ ناشرین صاحبان کتاب شائع کرنے کے بعد چند نسخے عنایت کر دیتے، بھٹی صاحب انھیں فروخت نہ کرتے، بلکہ حلقہ احباب کی خدمت میں ہدیہ پیش کرتے رہے۔عقیدۂ توحید پر ثابت قدمی سے اللہ مسبب الاسباب خود حاجات پوری کر دیتا ہے۔ ان کے علمی قدر دانوں کا حلقہ پاکستان اور بیرونِ ملک وسیع تھا۔ چند احباب بن مانگے ان کی خدمت کرتے رہے، وہ بھی دعا دیتے تھے، ہم بھی ان کے مال و عمل میں برکت کے لیے دعاگو ہیں ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ علما کے قدر دان اور جماعتی رازوں کے امین تھے۔ طاغوتی چیلے مذہب کو بدنام کرنے کے لیے اسلام کی ترجمانی کرنے والوں کی کردار کشی کرکے معاشرے میں رسوا کرتے رہتے ہیں ۔ اختلاف ہونا فطری ہے، مسلکی ہم آہنگی کے باوجود علما میں نظم کے بارے میں تضاد رونما ہوتا رہا ہے تو بعض صاحبان کے قلم حرکت میں آتے رہے اور مخالفت میں بشری کمزوریوں کا پردہ فاش کرتے رہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سے تازیست تعلق برقرار رکھا، لیکن دوسری اہلِ حدیث تنظیموں کے علما سے بھی بدستور تعلق استوار رہا۔ وہ ان کی خوبیوں اور کمزوریوں سے پوری طرح باخبر تھے، لیکن انھوں نے اپنی کسی تحریر میں کسی کی کردار کشی نہیں کی۔ متعدد بار ملاقاتیں ہوئیں ، جماعتی امور بھی زیرِ بحث آئے، لیکن انھوں نے کسی عالم کی عیب جوئی نہیں کی، البتہ ان کے مستحسن عمل کی داد ضرور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک وفاقی وزیر نے مدارس اور علما کے خلاف بیان دیا تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے دیگر جرائد و رسائل کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا، لیکن جناب بشیر انصاری صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا، جنھوں نے مسلم لیگ سے الحاق کے باوجود ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کے اداریے میں سختی سے نوٹس لیا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ جید عالمِ دین، مورخ، مصنف، دانشور، ادیب، نقاد اور اپنے عہد کی مکمل تاریخ تھے۔ وہ اسلاف کی سادگی، حق گوئی اور عاجزی کا مہکتا ہوا پھول تھے۔ اپنی آپ بیتی میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت کے دوران میں اپنی خدمات کو خوب بیان کیا: ’’بڑے سائز کے سولہ صفحات کے اخبار ’’الاعتصام‘‘ کا میں خود ہی خاکروب، خود ہی چپراسی، خود ہی کلرک، خود ہی منیجر اور خود ہی ایڈیٹر تھا۔ یعنی ان تمام مناصب پر میں اکیلا ہی قابض تھا۔ الحمدللہ، رب العالمین نے بڑی توفیق عطا فرمائی تھی۔‘‘(گزر گئی گزران، ص، ۲۱۳) تکبر فی العلم میں مبتلا کرنا شیطانی حربہ ہے، اللہ کے کرم سے بھٹی جی رحمہ اللہ محفوظ رہے۔ ان میں تحمل و بردباری کی صفت قدرتی تھی، لیکن عجز و انکساری کی صفت میں ان کے اساتذہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ کی تعلیم و تربیت اور مولانا سید محمد داود غزنوی اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہما اللہ کی رفاقت و صحبت کا کمال تھا۔
Flag Counter