Maktaba Wahhabi

280 - 924
مرتبہ یہاں آیا تھا، وہ اپنے اس ’’باغ‘‘ اور عمارات کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم لوگوں سے اپنے بڑوں کی باتیں سنتا رہا۔ وہ ہمیں انار کلی بھی لے گیا اور وہاں اپنے مکانات دکھائے اور ساتھ ساتھ بتاتا رہا کہ اس کمرے میں کتابیں تھیں ، یہاں پلنگ ہوتا تھا، یہاں الماری تھی، یہ مہمان خانہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نے ہم سارے ساتھیوں کو دفتر کے لان میں اکٹھا کیا اور ایک پُرتکلف چائے کا اہتمام کیا۔ چائے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بزرگوں کی باتیں کرتا رہا اور ہم بھی اس کا ساتھ دیتے رہے۔ بعدہٗ وہ واپس ہندوستان چلا گیا اور وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ ملنے کے لیے ضرور آئے گا، مگر وہ دوبارہ نہ آسکا۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو چوں کہ تاریخ و سوانح کے ساتھ خاص شغف تھا، اس لیے انھوں نے بتایا کہ اس علاقے(کلب روڈ / مال روڈ)میں اُس وقت صرف دو عمارتیں پرائیویٹ ہوا کرتی تھیں ، باقی سب سرکاری تھیں ۔ ان پرائیویٹ عمارتوں میں ایک نرسنگھ داس گارڈن اور دوسری میاں افتخار الدین کی کوٹھی شامل تھیں ۔ میں ایک مرتبہ مجید ملک صاحب کے ہمراہ یہ کوٹھی دیکھ کر آیا۔ بڑی عالی شان اور وسیع کوٹھی تھی۔ اس کے اندر ایک بہت بڑی لائبریری بھی تھی۔(اس موقع پر انڈیا سے عبدالرؤف ندوی صاحب کا ٹیلی فون آ گیا۔ بھٹی صاحب نے بات کر کے ٹیلی فون بند کر دیا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ)’’جب میں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں تھا تو ایک روز ایک صاحب جعفر صاحب سے ملنے کے لیے پتا پوچھتے پوچھتے وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت ہمارے دفتر میں جعفر شاہ پھلواروی اور رئیس احمد جعفری بھی کام کیا کرتے تھے، میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا تم نے جعفر سے ملنا ہے یا جعفری سے؟ کیوں کہ ہمارے ہاں کبوتر اور کبوتری کی طرح ان کا بھی جوڑا ہے۔‘‘ اس پر محفل کشتِ زعفران بن گئی۔(یاد رہے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی طبیعت میں مزاح بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور مزاح بڑا سلجھا ہوا ہوتا تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ مزاح کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا کرتے تھے)۔ اسی اثنا میں بیگم غزالی کا فون آ گیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بتایا کہ یہ خاتون مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کی بہو ہیں اور مجھ سے اُن پر ایک مضمون لکھوانا چاہتی ہیں ۔ اس دوران میں دیپالپور سے عبدالجبار سلفی صاحب کے برادرِ خورد جناب عبدالمالک سلفی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ بھٹی صاحب سے اُن کی یہ پہلی بالمشافہہ ملاقات تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں نے آپ کی تمام تالیفات پڑھی ہیں اور مدت سے خواہش تھی کہ آپ سے ملاقات بھی کروں ۔ الحمدللہ! آج یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔‘‘ سلفی صاحب اپنے ساتھ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے لیے امرودوں کا تحفہ بھی لے کر آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد سعید احمد بھٹی صاحب امرود کاٹ کر لے آئے اور ہم سب نے مزے سے کھائے۔ ساتھ ساتھ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی خوش مزاجیاں بھی چلتی رہیں ۔ بے شک وہ معلومات کا ایک سمندر تھے۔ بولنے پہ آتے تو بولتے ہی چلے جاتے۔ کیا مجال اپنے موضوع سے ذرہ بھر انحراف کریں ۔ سننے اور دیکھنے والے حیران رہ جائیں ۔ ہر واقعے کی جزئیات اس طرح بیان
Flag Counter