Maktaba Wahhabi

283 - 924
لگائیں کہ مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ بھی اس کے ایڈیٹر رہے۔ یہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی نمایندگی کرتا ہے۔ ’’الاعتصام‘‘ کے ساتھ وہ تقریباً ۱۶ سال بطور مدیر وابستہ رہے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے بھی تقریباً ۳۲ سال وابستگی رہی۔ اس ادارے میں انھوں نے محنت اور جانفشانی سے کام کیا اور ان کی صلاحیتیں مزید نکھر آئیں ۔ وہ جہاں بھی رہے، خوب لگن سے کام کیا۔ وہ کوئی سیلانی طبیعت کے مالک نہ تھے، بلکہ ان کے مزاج میں ٹھہراؤ تھا۔ انھوں نے کئی اخبارات میں مضامین لکھے اور مجلات سے منسلک رہے۔ ترجمہ نگاری میں بھی مولانا بھٹی رحمہ اللہ کا عمدہ کام ہے۔ ابن ندیم کی ’’الفہرست‘‘ کا عربی سے اردو میں بڑا رواں اور سلیس ترجمہ کیا۔ آپ ان کے ترجمہ کے لیے منتخب کام پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بالغ نظر شخصیت تھے۔ ’’الفہرست‘‘ کتب کے حوالے سے ایک جامع انسائیکلو پیڈیا ہے، جس کی ہر طرف طلب ہے۔ یہ کتاب ہر محقق کی ضرورت ہے اور موجودہ دور میں تحقیق کی بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے ہاں ترجمہ نگاری کی طرف کم توجہ ہے۔ ایک دوسرے کے فکر و فلسفے سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ زبان سیکھیں ، جس میں وہ فکر و فلسفہ موجود ہے اور اگر یہ نہیں تو ماہرینِ لسانیات کو ترجمہ نگاری کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، جس طرح مولانابھٹی رحمہ اللہ اور دیگر فضلا نے بعض عمدہ ترجمے کیے۔ اگرچہ مولانا رحمہ اللہ ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن وہ کشادہ ذہن کے مالک، وسیع النظر اور ایک صاحبِ بصیرت انسان تھے۔ وہ سب کی خوبیوں کو سراہتے اور سب کی خامیوں کو اصلاح کی غرض سے ہدفِ تنقید بناتے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ جہاں دیدہ شخص تھے اور اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزر چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل سے انھوں نے ۹۱ سال عمر پائی۔ وہ خوش طبع اور شگفتہ مزاج عالمِ دین تھے۔ شیرینی گفتگو سے وہ مجلس کو پر لطف بنا دیتے۔ ملاقات کے لیے آنے والوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور ان کی خوب تواضع کرتے۔ ہر کوئی بآسانی ان سے مل کر فیض حاصل کر سکتا تھا۔ عام طور پر اہلِ حدیث کے بارے میں یہ(ایک عامیانہ)تاثرہے کہ وہ روکھے ہوتے ہیں ، لیکن مولانا صاحب رحمہ اللہ بڑے شگفتہ مزاج تھے۔ جو ایک دفعہ ان سے ملتا دوبارہ ان سے ملنے کی تمنا کرتا۔ ظریفانہ مزاج کے مالک اور ہر کسی سے تبسم کے ساتھ ملتے۔ وہ ’’وجۂ طلق‘‘ کی عملی تصویر تھے۔ مولانا صاحب رحمہ اللہ لکھنے کے شہسوار تھے۔ ان کی پہچان ہی ایک بہترین لکھاری کی تھی۔ ان کا اسلوب ِنگارش دل نشین تھا۔ علمائے کرام عام طور پر خطابت پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں ، لیکن ان کے ہاں زبان سے زیادہ قلم کی اہمیت نظر آتی ہے۔ قلم کو بھی انھوں نے اسلام کی خاطر استعمال کیا۔ آپ نے علمی کام کرنے والی شخصیات کو ایک نئی زندگی عطا کی اور بعض شخصیات کو گمنامی سے نکالنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے عوام پر ان کا احسان ہے کہ انھوں نے دینی شخصیات کے نئے پہلو متعارف کروائے۔ اردو ادب کی صنف سوانح نگاری کی آبیاری کی۔ انھوں نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کی اصطلاح ’’ادب برائے زندگی‘‘ کو پروان چڑھایا۔ وہ صرف صاحبِ قلم ہی نہیں ، ایک خطیب بھی تھے اور دعوتِ دین
Flag Counter