Maktaba Wahhabi

284 - 924
کے جذبے سے کچھ عرصہ مسجد ’’دار السلام‘‘ باغ جناح لاہور میں خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرماتے رہے۔ وہ ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ متانت ان کا زیور تھا۔ ہر کسی سے ملنساری سے ملتے۔ تواضع اور سادگی سے آراستہ تھے۔ نوجوانوں سے خاص محبت تھی اور ان کی دینی امور کے بارے میں راہنمائی کرتے تھے۔ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے نوجوانوں کی خصوصی حوصلہ افزائی فرماتے۔ علما کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو دینی علوم اور عربی زبان و ادب کی جانب راغب کریں ۔ عربی ادبیات دراصل قرآن و حدیث کی تفہیم کے لیے آلہ اور بنیادی علم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا شمار ان علمائے کرام میں سے ہوتا جو عوام اور روایتی علما کو جامد اور اندھی تقلید سے نکال کر خالص توحید کی طرف لے کرجانا چاہتے تھے۔ اسلام ہمیں اکابر کے ساتھ وابستہ رہنا سکھاتا ہے، لیکن وہ ساتھ غور و فکر پر بھی زور دیتا ہے۔ ہمارے زوال کی ایک علامت جامد تقلید ہے۔ اسلام ہمیں تحقیق پر آمادہ کرتا ہے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ اور اس قبیل کے دیگر چند علمائے کرام لوگوں کو حقیقی اسلام کی راہ دکھانے والے ہیں ۔ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اگرچہ ایک خاص مسلک کی پابند ہوتی ہیں ، لیکن وہ اعتدال اور رواداری کا دامن تھامنے کی وجہ سے سب کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ مولانا ان میں سے ایک ہیں ۔ دوسرے مسالک کے نمایندگان سے بھی ان کا پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ اگرچہ انھوں نے شخصیات پر زیادہ کام کیا، لیکن وہ خود کسی خاص شخصیت کے اسیر نہیں ہوئے، صرف ان کی خدمات کی حد تک دلچسپی رکھی۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی سرگزشت ’’گزر گئی گزران‘‘ کے عنوان سے تحریر کی اور اس کو دلچسپ طرزِ تحریر سے آراستہ کیا۔ اس کو پڑھنے سے تاریخ کے اس خاص عہد کے بارے میں جان کاری ہوتی ہے، جس میں مولانا بھٹی رحمہ اللہ نہایت فعال رہے ہیں ۔ یقینا وہ علمائے کرام کو پیغام دے گئے ہیں کہ وہ وعظ و نصیحت اور خطابت کے ساتھ ساتھ لکھنے پر بھی توجہ دیں ، کیوں کہ قلم انسان کو زندہ رکھتا ہے۔ اگرچہ لکھنے کا کام خطابت کی نسبت دشوار ہے لیکن قلم تبلیغ کا ایک پُروقار ذریعہ ہے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی خدمات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بعض جامعات میں ان پر مقالات بھی لکھے گئے ہیں ۔ ایک مقالہ پروفیسر فوزیہ سحر ملک نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے مولانا کی خاکہ نگاری کے بارے میں لکھا۔ جامعہ پنجاب ہی میں ایک دوسرا مقالہ پروفیسر حماد لکھوی کی نگرانی میں لکھا گیا۔ مولانا کی شخصیت پر مولانا محمد رمضان یوسف سلفی نے عمدہ کتاب مرتب کی ہے۔ اس کتاب کا ناشر مکتبہ رحمانیہ( ناصر روڈ، سیالکوٹ )ہے۔ ادارہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور کے ناظم و معروف سیرت نگار مصنف مولانا حمیداللہ خان عزیز نے مولانا مرحوم کی شخصیت کی مختلف جہات کو موضوع بنا کر ایک جامع کتاب مکمل کر لی ہے، جو جلد ہی زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آجائے گی۔ إن شاء اللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔ آمین!
Flag Counter