Maktaba Wahhabi

303 - 924
ساتھیوں کے مجبور کرنے پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے۔ ورنہ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ جیسے بڑے انسان پر کچھ لکھنا ہمارے جیسے طفلِ مکتب کے لیے آسان نہیں ہوتا، اس لیے کہ اتنے بڑے انسان پر کچھ لکھتے وقت ہر ہر لفظ سوچ سمجھ کر لکھنا پڑتا ہے، تاکہ کہیں کوئی بے ادبی و گستاخی کا پہلو نہ نکل آئے۔ علاوہ اس کے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ مولانا رحمہ اللہ کی شخصیت ہمارے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریکِ آزادیِ ہند، تحریکِ ختمِ نبوت اور تحریکِ قیامِ پاکستان میں حصہ لینے والے سرفروشوں میں مسلک اہلِ حدیث سے وابستہ افراد نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ ان متحرک اور فعال بزرگوں کی جہدِ مسلسل کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں بے شمار مدرسین، محدثین، مفسرین، واعظین، مبلغین، مجاہدین اور مصنفین پیدا ہوئے۔ جنھوں نے ایک طرف خالص دینِ اسلام کی مشعل روشن رکھی تو دوسری طرف اسلامی صحافت کا پرچم تھاما۔ اپنے تن من دھن کی قربانیاں دے کر ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے، جن کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ الغرض برصغیر کی تحریکِ آزادی کی تاریخ میں حاملین مسلک اہلِ حدیث کا کردار ایک روشن باب کی طرح ہے، تاریخ کا طالبِ علم ان عظیم سپوتوں کے کارناموں سے کبھی صرفِ نظر نہیں کر سکے گا۔ ہمیں اپنے ان کابر کے کارناموں پر ہمیشہ فخررہے گا، جو کردار کی دنیا میں جبلِ عظمت تھے۔ ہمارے ممدوح حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی انہی پاک باز لوگوں میں سے ایک تھے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہی نے ہم کو بتلایا تھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کون تھے۔ حضرات لکھوی، غزنوی اور روپڑی رحمہم اللہ بزرگ کیسے تھے؟ قصوری خاندان رحمہ اللہ کی علمی اور سیاسی خدمات کیا ہیں ؟ جن کا تذکرہ اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ کے پلے ہی کچھ نہیں رہتا۔ ایسی ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرتاپا غرق تھیں ۔ آج کے اس پر فتن دور کے اندر جن کی مثل ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ملک کے دینی و ادبی حلقوں میں ایک نمایاں اور امتیازی مقام تھا۔ آپ رحمہ اللہ کی زندگی پر اگر مفصل لکھا جائے تو طویل وقت اور بہت زیادہ اوراق کی ضرورت پڑے گی۔ جماعت اہلِ حدیث میں ان سے محبت تو فطری تھی، لیکن دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگوں میں بھی آپ کا بڑا احترام پایا جاتا تھا۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے جہاں قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھا، وہیں آپ رحمہ اللہ نے حدیث اور علومِ حدیث کے طالب علموں پر بھی اپنا قلم چلایا۔ بہت سارے اکابرِ جماعت کا اجمالی تعارف شائع کیا۔ اک در نایاب جمع کیا۔ زمین نے گویا اپنے چھپے خزانے اُگل دیے اور یہ سب کچھ اپنی کتب میں محفوظ کر دیا۔ پوری جماعت کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کیا۔ اہلِ ذوق کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ چھوڑا۔ اتنا کام کیا جو ایک پوری جماعت یا سو سائٹی کے کرنے کا تھا۔ پھر اس پر بھی وہ فخر و غرور کے بجائے ہمیشہ عاجزی و انکساری سے پیش آئے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے وہ تحریری خدمات سر انجام دیں ، جس پر آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ ان کی تحریروں میں ہمیں غیرت و حمیت، جوان مردی اور جانثاری کا پیغام ملتا ہے۔
Flag Counter