Maktaba Wahhabi

304 - 924
محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تصانیف پر ایک نظر ڈالیں تو بعض وجوہ سے آپ کی کتابیں اپنے معاصر حضرات سے امتیازی شان رکھتی ہیں ، معلومات کا خزانہ ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا، دیانت داری کی بات ہے کہ ان کی تحریریں اس عنوان پر سند کا درجہ رکھتی ہیں ۔ ان کو پڑھیں تو معلومات کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ اس کی گہرائی تک رسائی حاصل کریں تو موتیوں کے ڈھیر پائے جاتے ہیں ۔ طرزِ تحریر، اسلوبِ بیاں ایسا دل کش، سادہ، عام فہم اور معتدل جو ذہن و قلب میں نقش ہوتا چلا جائے۔ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے جن شخصیات کے بارے میں لکھا، ان میں پرانی وضع کے بزرگ بھی تھے اور نئی طرزِ فکر کے علمبردار بھی۔ اور کچھ ایسے حضرات بھی ہیں جنھوں نے جدید و قدیم کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس اعتبار سے یہ مضامین صرف تنوع نہیں ، بلکہ دلچسپ اور بصیرت افروز بھی ہیں ۔ ان میں نہ صرف عظیم واقعات، حادثات اور کئی نامور شخصیات کاذکر ہے، بلکہ ان کی زندگی کے بعض چھوٹے چھوٹے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ بھی ہے۔ آپ رحمہ اللہ کی تحریروں میں اکابرِ اہلِ حدیث کی زندگیوں کے وہ گوشے بھی ہمارے سامنے آئے، جن سے ہم نا آشنا تھے۔ آپ رحمہ اللہ کی تحریروں میں علم و تحقیق کی روشنی بھی ہے اور فکرِ سلیم کی سنجیدگی بھی۔ آپ رحمہ اللہ نہایت موثر اور ٹھوس تحریر کا ملکہ رکھتے تھے، مختصر الفاظ میں لیکن جامع گفتگو کرنا آپ کا خاصا تھا۔ تحریر میں ایسا دل پذیر اسلوب اپناتے تھے کہ قاری کے لیے آپ رحمہ اللہ کی پوری تحریر پڑھنا فرض ہو جاتا تھا۔ آپ رحمہ اللہ نے جب لکھنا شروع کیا تو اس میں اعتدال کی وہ مثال قائم کی کہ خود اس میں ضرب المثل بن گئے۔ نا مناسب و نازیبا الفاظ کا استعمال آپ رحمہ اللہ پر گراں گزرتا تھا۔ یہی وہ خوبیاں تھیں جس نے آپ رحمہ اللہ کو دوستوں اور غیروں کی نظروں میں باوقار بنا دیا تھا۔ آپ رحمہ اللہ چلنے میں علم کا وقار تھے، متانت و سنجیدگی لیے ہوئے جس مجلس میں داخل ہوتے، اہلِ مجلس کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے۔ جب بولتے تو اہلِ مجلس میں تاریخ کے موتی لٹاتے۔ آپ رحمہ اللہ کی ان ہی خوبیوں نے آپ رحمہ اللہ کو ہر دل عزیزی اور محبوبیت کے مقام پر فائز کرایا تھا۔ آپ رحمہ اللہ نمونہ اسلاف تھے۔ آپ رحمہ اللہ کی ذات سے بہت ہی خیر و برکت کی یادیں وابستہ ہیں ۔ آپ میرے دادا جان حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری رحمہ اللہ کے پرانے ساتھیوں میں سے تھے، اس لیے کئی بار ہمارے ہاں بورے والا تشریف لائے۔ آپ رحمہ اللہ اپنی گفتگو اور تحریروں میں بھی حضرت گورداسپوری رحمہ اللہ اور ان کی حکیمانہ و ظریفانہ باتوں کا اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے۔ حضرت گورداسپوری رحمہ اللہ کے بیٹے اور میرے چچا جان حافظ محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ(میاں چنوں )کی وفات پر آپ رحمہ اللہ اپنے داماد کے ساتھ تعزیت کے لیے بورے والا ہمارے ہاں تشریف لائے تو حضرت دادا جان رحمہ اللہ اپنی مسجد کے برآمدہ میں احباب کے ساتھ زمین پر ہی صفوں پر تشریف فرما تھے۔ آپ رحمہ اللہ چپکے سے آئے۔ سلام کیا اور حضرت گورداسپوری رحمہ اللہ جو بیٹھے ہوئے تھے، کو عقب سے ’’جپھی‘‘ ڈال
Flag Counter