Maktaba Wahhabi

315 - 924
مولانا خالد گرجاکھی پر کچھ لکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ان کے بیٹوں ، بھائی عبدالغنی ثاقب عرفانی اور دیگر احباب سے کئی کئی مرتبہ ملا، رابطہ کیا، لیکن خواہش کے مطابق معلومات میسر نہیں ہو ہو رہی تھیں ۔ حیران ہوں کہ اللہ نے مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اتنا حوصلہ اور جراَت عطا فرمائی کہ ستر سال تک بے لوث یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ صحیح کہا ہے مولانا عزیز زبیدی رحمہ اللہ نے کہ مولانا اسحاق بھٹی ’’ذہبیِ وقت‘‘ تھے۔ اگر ’’ذہبی‘‘ چلنے کے معنی میں ہو تو بھی نصف صدی تک قلم چلتا رہا، اگر جراَت، ہمت اور استقلال کے معنی میں ہو تو پھر بھی صحیح ہے۔ کیوں کہ اپنے قلم کے سفر میں آخر تک جواں مرد رہے۔ یہ انہی کا خاصا ہے، بقول پروفیسرمولا بخش محمدی: ’’بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے جو لکھا ہے، اگر اس کو کتابی شکل دی جائے تو پچاس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہوں گے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن کی ۳۴/ ۳۵ سال تقاریر کے بے شمار صفحات اس کے علاوہ ہیں ۔ متعدد کتابوں کی ایڈیٹنگ(ادارت)بھی اس میں شامل نہیں ہے۔‘‘ موصوف مستند جید عالمِ دین تھے۔ ’’فہرست ابن ندیم‘‘ اور ’’ریاض الصالحین‘‘ جو بہت علمی اور عربی میں ہے، کا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ترجمہ کیا ہے۔ وہ ہماری لائبریری میں موجود ہے۔ تقریباً ۹۰۰ صفحات کی کتاب ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہماری جماعت کے اکابر علما میں سے ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی بالکل سادہ مزاجی میں گزاری ہے۔ جنازے کے بعد مائک پر اعلان ہوا کہ دوسرا جنازہ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے گاؤں منصور پور چک نمبر ۵۳۔ گ، ب تحصیل جڑانوالہ میں ہوگا۔ ان کے بھائی سعید احمد بھٹی صاحب یہاں پر تشریف فرما ہیں ۔ تعزیت کرنے والے حضرات ان سے یہاں تعزیت کر لیں ۔ جنازے کے بعد زیارت کی غرض سے آگے بڑھے، رش کافی تھا۔ لیکن وہاں کچھ واقف احباب نے دیکھ کر کہا کہ شیخ صاحب آپ ادھر آئیں اور زیارت فرمائیں ۔ چنانچہ زیارت کے بعد سعید احمد بھٹی حفظہ اللہ سے ملا، پرنم آنکھوں سے تو بہت افسردہ اور غمگین نظر آئے۔ وہاں تقریباً ہر آنکھ ہی پرنم تھی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ تو پھر ان کے ماں جائے سگے بھائی تھے۔ یہ صدمہ بھائیوں کو ہی معلوم ہوتا ہے اور کوئی نہیں جانتا۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی، ایسے گلے لگے کہ جیسے سگے بھائی ہوں ۔ چلنے پھرنے کی کیفیت یہ تھی کہ جیسے کوئی بہت بڑی چیز گم ہوگئی ہواور آدمی تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی ایسے ہی نظر آتے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی وہ چیز بھائی محمد اسحاق بھٹی صاحب گم ہو گئے تھے، قیامت سے پہلے ان کا ملنا ممکن نہیں ، ہم دعا گو ہیں کہ اللہ انکو جنت میں ملا دے اور دوریاں دور فرما دے۔ آمین جنازہ اٹھایا گیا، ملک بھر سے آنے والے علما ایک دوسرے سے مل کر تعزیت فرمارہے تھے۔ بڑے بڑے جید عالم، شیخ الحدیث اور مناظرین حضرات بھی یہ کہہ رہے تھے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ جیسا مورخ مائیں روز روز پیدا نہیں کرتیں ۔ یہ جماعت اہلِ حدیث کا انمول ہیرا تھا۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ ’’مر گیاں یا ٹُرگیاں پتا لگدا اے!۔‘‘
Flag Counter