Maktaba Wahhabi

316 - 924
جنازے میں لاہور کے بڑے بڑے تاجر روتے دیکھے گئے، وکلا اور جج ان کی جدائی میں غمزدہ تھے، وہاں مولانا مفتی عبدالستار حماد میاں چنوں ، مولانا عبیدالرحمن محسن راجووال، مولانا عبدالرحمن یوسف راجووال، مولانا محمد حسین ظاہری اوکاڑہ، مولانا فاروق احمد راشدی سب غم میں نڈھال نظر آرہے تھے۔ دوسرا بڑا جنازہ جڑانوالہ میں ہوا، جو شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم نے پڑھایا، جس میں فیصل آباد، جڑانوالہ، قصور اور گرد و نواح کے لوگ شریک ہوئے۔ بعد ازاں بھٹی صاحب مرحوم کے جسد خاکی کو آبائی قبرستان منصور پور چک نمبر ۵۳ گ ب میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ۲۰۰۴ء کی بات ہے کہ جب میری کتاب ’’أحسن الأبحاث بجواب عمدۃ الأثاث‘‘ جو بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے تین ہونے کے رد میں لکھی گئی اور مولانا سرفراز صفدر گکھڑوی کے مغالطات کا مدلل جواب ہے، شائع ہوئی تو مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو بھیجی کہ آپ اس پر تبصرہ فرمائیں تو مولانا موصوف نے مجھے جوابی خط لکھا کہ آپ کی کتاب علمی ہے، مفسرِ قرآن، محققِ اسلام مولانا صلاح الدین یوسف حفظاللہ ، مفتی شیخ الحدیث مناظر اسلام مولانا اللہ بخش ملتانی رحمہ اللہ اور ملک کے نامور محقق و مناظر مولانا مبشر احمد ربانی لاہور، شارح ترمذی و ابن ماجہ مولانا محمد یحییٰ گوندلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس اثری حفظہ اللہ کی تصدیقات اور تقریظات کے بعد لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ میں تو علما کا ایک ادنیٰ سا خادم ہوں ، لہٰذا کتاب کے متعلق کچھ لکھنے سے معذرت چاہتا ہوں (ملخصاً)۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے میری کوئی زیادہ لمبی چوڑی ملاقات نہ تھی۔ شاید ایک دو مرتبہ زیارت کی تھی۔ ایک ملاقات ۱۱؍ مارچ بروز اتوار ۲۰۱۲ء میں ہوئی، جب وہ قلعہ میہاں سنگھ(گوجرانوالہ)میں مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ پر لکھی گئی اپنی کتاب کی رونمائی کے موقع پر تشریف لائے۔ اسی طرح وہاں سیّد جنید غزنوی اور پروفیسر حماد لکھوی حفظہ اللہ وغیرہ حضرات کو بھی میں نے پہلی بار دیکھا اور سنا۔ بھٹی صاحب مرحوم کا اندازِ بیاں منفرد، تکلفات سے سے پاک مگر پر لطف اور جامع تھا۔ میں آج بھی ان کے یہ الفاظ نہیں بھول سکتا، فرماتے ہیں : ’’میں نہ تو کوئی عالم ہوں اور نہ ہی مقرر! میں تو علما کا خادم ہوں ۔‘‘ مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اس وقت لکھوی خاندان کی علمی و دینی خدمات کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور دیگر اکابر علمائے اہلِ حدیث پر مختصر مگر جامع تبصرہ فرمایا۔ یہ مجلس چونکہ مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ پر لکھی گئی کتاب کے حوالے سے تھی، اس لیے ان ہی کا تذکرہ ہوتا رہا۔ میرے لیے بھٹی صاحب مرحوم کا یہ پہلا اور آخری خطاب تھا، جو میں نے سنا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور زندگی میں ہونے والی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ آمین
Flag Counter