Maktaba Wahhabi

341 - 924
کمال مہربانی سے ایڈریس اور فون نمبر لکھ دیا، اور ساتھ ہی آپ نے میری آسانی کے لیے خود ہی بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے رابطہ کر کے مجھے مدرسہ ’’تقویۃ الاسلام‘‘ شیش محل روڈ جانے کے لیے کہا، ساتھ ہی فرمایا: وہاں ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر میں آپ کی بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہو جائے گی۔ محترم بشیر انصاری صاحب سے اجازت لے کر میں نے شیش محل کی راہ لی، ظہر کی نماز وہیں ادا کی، پھر نمازیوں سے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا پوچھا تو اُن میں سے ایک مجھے کچھ دور ایک بلڈنگ میں لے آیا، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ’’الاعتصام‘‘ کا دفتر ہے۔ دفتر میں ۵۔۶ نورانی صورتیں جلوہ افروز تھیں ۔ سوائے ایک دو کے باقی سب سفید ریش بزرگ تھے، سلام دعا اور حال و احوال کے بعد میں نے اُن میں سے ایک نوجوان سے، جو ادارہ ’’الاعتصام‘‘ کا کارکن تھا، بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا پوچھا، لیکن اس نوجوان کے جواب سے پہلے ہی ایک بزرگ نے، جو چشمہ لگائے اور تلے والا کھسہ پہنے ہوئے تھے، مجھے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا کہتے ہوئے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ میں نے عرض کیا: ’’گوجرانوالہ سے۔‘‘ انھوں نے پوچھا کہ آپ کو بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا: ان کی کتب پڑھنے کے بعد ان کی زیارت کا شوق لیے حاضر ہوا ہوں ۔ اس دوران میں مَیں نے محسوس کیا کہ باقی بیٹھے بزرگ بھی ساتھ ساتھ ہلکا ہلکا تبسم فرما رہے ہیں ۔ پھر میں نے عرض کیا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کہاں ہیں اور کب آئیں گے؟ وہ بزرگ جو میرا حال احوال اور مدعا پوچھ رہے تھے، ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا میں ہی ہوں محمد اسحاق بھٹی۔ ان کی بات سن کر میری حیرت کی حد نہ رہی۔ میرے ذہن میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا خاکہ محترم رانا شفیق پسروری کی طرح کا تھا۔ گفت و شنید کے بعد آپ نے دوسرے بزرگ و احباب سے تعارف کروایا، ان میں سے ایک بزرگ کا اسم گرامی تو مجھے اب تک یاد ہے، وہ تھے حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کے صاحبزادے جناب حافظ احمد شاکر حفظہ اللہ ، اور باقی بزرگوں کے نقوش تو لوحِ ذہن پر محفوظ ہیں ، مگر ان کے اسمائے گرامی محو ہو چکے ہیں ۔ چائے وغیرہ کے ساتھ ساتھ کچھ دیر آپ سے ملاقات رہی، جو بہت ہی دلچسپ رہی، جس میں محبت کی چاشنی اور ہلکا ہلکا مزا لیے لطائف بھی شامل تھے۔ یہ تھی میری پہلی ملاقات، جس کی یادیں آج بھی تر و تازہ ہیں ۔ اس سے کچھ عرصے بعد آپ خود میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ آپ کے اچانک گھر آنے پر دل بہت باغ باغ ہوا، آپ نے بچوں اور گھر کی خیر و برکت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، آپ کے ساتھ ایک اور عالمِ دین بھی تھے، بدقسمتی سے ان کا اسم گرامی بھی ذہن سے نکل گیا ہے، انھوں نے شیر پنجاب حضرت مولانا منظور احمد صاحب سے ملاقات کرنی تھی اور ان دنوں شیر پنجاب کی رہایش گاہ میرے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھی، میں ان کو لے کر شیرِ پنجاب کے گھر گیا، جناب مولانا منظور احمد صاحب نے دروازہ کھولا اور آپ نے بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے آنے پر بہت مسرت کا اظہار فرمایا، واپسی پر آپ نے مجھے ساندہ آنے کی تاکید کی۔
Flag Counter