Maktaba Wahhabi

342 - 924
پھر بعد میں ملاقات کا سلسلہ چل نکلا، جب بھی لاہور آتا، بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے ضرور راہ نکالتا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے میری لگن کو دیکھ کر ان کی باتیں سن کر میرے مربی ڈاکٹر محمد جمیل صاحب نے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ برادرانہ خواہش کی تکمیل بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کا بہانہ بن گئی۔ ہر ملاقات میں مجھے نئی بات سے آگاہی ہوتی اور آپ کی ہر ملاقات میں دل اکابر کی باتوں سے سرشار ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ملاقاتوں کے دوران میں جناب سعید احمد بھٹی صاحب سے بھی ملاقات ہوتی تھی، جو بہت ملنسار اور مہمان نواز شخصیت ہیں ، اور اپنے بڑے بھائی محمد اسحاق صاحب رحمہ اللہ کی طرح تاریخ کے علم سے بہرہ ور۔ جناب اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا میرے ساتھ تعلق ایک بزرگ شفیق محسن کا سا تھا۔ آپ میرے بعض گھریلو معاملات پر تفکر کا اظہار فرماتے اور اپنی دعاؤں اور نصیحتوں سے نوازتے رہتے۔ان سے آخری ملاقات ۲۰۱۱ء کے آخر میں ہوئی اور میں بسلسلہ روزگار ملائیشیا چلا گیا، اس سے جہاں میری جماعتی زندگی کٹ گئی، وہاں علم وادب کے بحر بے کراں سے بھی رابطہ منقطع ہو گیا۔ نومبر ۲۰۱۵ء میں اس لمبے سفر سے واپسی پر کچھ ذمے داریاں بڑھنے سے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کا کوئی بہانہ نہ بن سکا۔ دل میں بارہا ارادہ باندھا کہ ایک دو دن میں ساندہ جاؤں ، بلکہ ایک دفعہ ریاض بلڈنگ ساندہ ہی سے ملے بغیر واپس آگیا کہ ابھی خالی ہاتھ جاتے اچھا نہیں لگ رہا، اگلے جمعہ کو آپ سے ضرور ملاقات کروں گا۔ مگر افسوس اسی ہفتے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ اعلیٰ علیین میں تشریف لے گئے۔۔۔ آہ! بھٹی صاحب رحمہ اللہ صرف ایک مزدورِقلم ہی نہ تھے، بلکہ ایک درد دل رکھنے والے غمگسار بھی تھے۔ آپ صرف ایک تاریخ نویس ہی نہیں ، بلکہ تاریخ ساز بھی تھے۔ میرے دل و دماغ میں ہمیشہ سے دین کا درد رکھنے والے ایسے افراد رہے ہیں ، جن کو اللہ لمبی عمر کے ساتھ ساتھ بصیرت و بصارت کی خوبیاں عطا کرتا ہے، اور قدرت ان کی لمبی عمر کے ذریعے اس دور کے روشن دماغ افراد کے کارہائے نمایاں ، افکار و ادراک، تہذیب و تمدن اور اول و آخر تمام چھوٹی بڑی باتوں کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیتی ہے۔ جماعت اہلِ حدیث میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے مرکز اہلِ حدیث ۱۰۶ راوی روڈ سے لے کر مرکز القادسیہ چوبرجی تک، مرکز اہلِ حدیث لارنس روڈ سے لے کر جامعہ اہلِ حدیث چوک دالگراں تک آپ کی شخصیت ایک روشن مینار کی طرح نظر آتی ہے۔ آپ کی قابلِ رشک قسمت کہ آپ نے اپنے دور کے ممتاز اتقیا، ادبا، صوفیہ اور مشائخِ عظام کو نہ صرف قریب سے دیکھا، بلکہ ان سے فیض بھی حاصل کیا۔ جہاں آپ نے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ سے مسجد گنبداں والی فرید کوٹ سے لے کر محدثِ زمان حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا اسماعیل سلفی رحمہما اللہ گوجرانوالہ کے ہاں قرآن و حدیث کی تعلیم کی منازل طے کیں ، وہیں آپ نے بطلِ حریت حضرت مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ اور متکلمِ اسلام حضرت مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ سے تفسیر، ذکر و اذکار، علمِ منطق و فلسفہ میں بھی مہارت حاصل کی۔ اگر میں آپ کو اکابرِ جماعت کے حسن و کردار، علم و عمل کا عکس کہوں تو غلط نہیں ہوگا، اسی لیے
Flag Counter