Maktaba Wahhabi

343 - 924
آپ کی کتب ’’لسان القرآن‘‘ جلد سوئم، ’’ریاض الصالحین‘‘ کا اردو ترجمہ، ’’ارمغانِ حدیث‘‘ آپ کی نہ صرف قرآن و حدیث سے قلبی و روحانی گہری وابستگی کو ظاہر کرتی ہیں ، بلکہ یہ آپ کے اساتذہ محدث زماں حضرت گوندلوی، شیخِ جمعیت حضرت سلفی اور مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہم اللہ کے ٹھوس اور ثقہ علم کا ثبوت بھی ہیں ، اس کے علاوہ آپ کے سیکڑوں علمی مقالے، علمائے اہلِ حدیث کی شخصیات پر مدلل خاکے، فقہائے پاک و ہند، بزمِ ارجمنداں اور کاروانِ سلف، قافلۂ حدیث آپ کے وسعت علم، فراخ قلبی اور حسنِ تحریر کا شاہکار ہیں ، آپ نے جس پر بھی لکھا، ٹھوس اور مدلل لکھا اور خوب سے خوب تر لکھا۔ شہرِ سلفیت گوجرانوالہ سے ۱۹۴۹ء میں ’’الاعتصام‘‘ کے ایڈیٹر کے طور پر قلمی صحافت کا آغاز کرنے والے شہرِ سلفیت اور علمائے گوجرانوالہ کی طرف پوری جماعت کے قلمی نمایندہ بن گئے اور اس کے بعد ’’توحید‘‘، ’’منہاج‘‘ اور ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ جہاں بھی جس منصب پر بھی کام کیا، قلمی اور لسانی دعوت و تبلیغ کے ذرائع ہوں یا جلسہ عام سے لے کر ریڈیو، ٹیلی ویژن تک، آپ نے دعوتِ توحید، محبتِ حدیث، دعوتِ اہلِ حدیث اور اولیائے اہلِ حدیث کے کارہائے نمایاں کو لکھنے اور بیان کرنے میں اپنا منفرد نام و مقام بنایا، وہ نام جو ہر آنے والے قاری کے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے۔ پورے اداروں کا کام آپ نے اپنی ذات کی انجمن میں اکیلے کیا۔ آپ کی کتب کو پڑھتے وقت ایسے ہی گمان ہوتا ہے کہ ہم اس وقت وہاں ہی تھے اور واقعات کے تمام مناظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا محسوس کر رہے ہیں ، اور دوسرا آپ کی نگارشات میں ادبی چاشنی کے شگوفے قاری کو مکمل سحر میں جکڑ لیتے ہیں ۔ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ کی ۱۹۹۱ء میں چھپنے والی مولانا مودودی رحمہ اللہ اور ان کی جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء سے ۱۹۷۹ء تک کی کہانی اور فتاویٰ عالمگیری پر جس طرح آپ رحمہ اللہ نے علمی تحقیق کرتے ہوئے اس کے تمام ادوار، تاریخ و تالیف اور مرتبین کی علمی حیثیت پر علمی مقالہ لکھا، یہ دونوں خصوصی طور پر آپ کے اعلیٰ ذوقِ مطالعہ، علمی وسعت اور علمی دیانت کا باکمال ثبوت ہے۔ عالمِ شباب میں آپ نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی سیاست سے متاثر ہو کر آزادیِ ہند کی خاطر بہت کوشش کی۔ ’’پرجا منڈل‘‘ کی سیکرٹری شپ اور پھر فرید کوٹ اور فیروز پور جیل کی یاترا آپ کو اپنے وطن سے محبت اور فرنگی سے نفرت میں دوسرے اکابرین کی طرح ممتاز کرتی ہے اور پھر آپ رحمہ اللہ کے لیے آپ کی زندگی میں ہی ’’مورخ اہلِ حدیث‘‘ اور ’’ذہبیِ دوراں ‘‘ کا خطاب تجویز کر دیا گیا، اس لیے آپ نے خود بھی لکھا کہ ’’میں ایک غریب اور غیر معروف خاندان کا غریب اور غیر معروف فرد ہوں ، لیکن علمی حلقوں میں اللہ رب العزت نے بے حد اعزاز بخشا، میں پوری طرح اس کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔‘‘ آپ رحمہ اللہ نے پوری زندگی قناعت پسندی میں گزاری، خود داری کو کبھی پسِ پشت نہیں ڈالا۔ آپ کی بزرگوں اور ان کے اخلاف سے عقیدت اور ادب بھی انتہا کا تھا، جس کی تصدیق آپ کے اس واقعہ اور مکالمے سے ہوتی ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران میں آپ نے پروفیسر ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ(سابق ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث)کے جاری کردہ ماہنامہ ’’توحید‘‘ سے علاحدگی اختیار کر لی اور آپ رحمہ اللہ نے سید صاحب رحمہ اللہ کے استفسار پر ادب و آداب کو
Flag Counter