Maktaba Wahhabi

344 - 924
ملحوظ رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ سید صاحب نے کہا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ! جنگ کا زمانہ ہے اور مستقبل تاریک ہے۔ آپ نے جواباً عرض کیا کہ مستقبل میرے اور آپ کے کہنے سے تاریک یا روشن نہیں ہو سکتا، یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور آپ اکثر کہا کرتے تھے، حالات کیسے بھی حوصلہ شکن ہوں ، قلم کے مزدور کو کیا فرق پڑتاہے، محنت کش کے لیے دو وقت کی روٹی کوئی مسئلہ نہیں ، گھبراتے تو حریص لوگ ہیں ۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تاسیس آپ کے سامنے ہوئی۔ جماعتِ اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں بھی آپ موجود تھے، اکابرینِ جمعیت نے آپ کو مرکزی دفتر کا ناظم اول بھی بنایا اور ترجمان جمعیت اہلِ حدیث کا اولین اخبار ’’الاعتصام‘‘ کا اولین معاون ایڈیٹر بھی، ۱۹۵۱ء میں مدیر مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کی ’’الاعتصام‘‘ سے علاحدگی کے بعد آپ ایڈیٹر بنے، اس دوران میں آپ نے مشائخ عظام اور پورے ملک کے جید علما و صلحا سے ملاقاتیں بھی کیں اور ’’الاعتصام‘‘ کو ایک بڑے اخبار کا روپ دیا۔ یہ ایک ذمے داری تھی جو آپ کو جڑانوالہ میں گوڈی چھڑوا کر حرمتِ قلم کی آبیاری کے بانیان اکابر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث نے آپ کے سپرد کی۔ آپ نے اس ذمے داری کو اس طرح نبھایا کہ تاریخِ اہلِ حدیث کے تمام مجاہدوں ، غازیوں ، مناظروں ، خطیبوں کی تمام باتیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیں اور اس محنت کا پھل بھی آپ کو اپنی زندگی میں ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے خطاب کے طور پر ملا، اور آپ پر بہت سے احباب نے آپ کی زندگی میں مقالے لکھے، کسی نے پی، ایچ، ڈی کی تو کسی نے آپ کو رشکِ زمانہ لوگوں میں شمار کیا۔ میری یادداشتوں میں ایک کبھی نہ بھلائے جانے والاوہ منظر بھی ہے کہ ۲۰۰۸ء میں ’’آل پاکستان اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ جو ختم نبوت کے حوالے سے منعقد کی گئی، جس کے لیے آپ رحمہ اللہ نے ’’تحریک ختمِ نبوت میں اہلِ حدیث کی اولیات‘‘ کا آرٹیکل لکھ کر کانفرنس میں اپنا حصہ ڈالا۔ دورانِ کانفرنس اسٹیج پر علما کی مخصوص نشستوں پر دو صاحب اکٹھے بیٹھے تھے، وہ منظر آج تک میری نظروں میں محفوظ ہے، یہ دو صاحبان تمام علما میں نمایاں بھی تھے اور یہ تھے مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ جو سر پر سفید ٹوپی پہنے تھے اور ان کے ساتھ ادیب ملت جناب بشیر انصاری صاحب۔ ادیبوں کا جوڑا تھا جو بہت ہی منفرد تھا اور بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ تو چلے گئے، اللہ جناب بشیر انصاری صاحب کو صحت وایمان والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین میں اس کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں کہ کچھ باتیں اُس شخصیت پر لکھی ہیں ، جنھوں نے ۶۰ سال جماعت اور منہج کی خدمت میں لگا دیے۔ جو زندگی میں بھی آبروئے صحافت تھے اور دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی، جو ہیں تو بلند مقام مگر رہے گمنام، جنھوں نے اہلِ حدیث کے ماضی، حال، سیاست اور تاریخ کو عوام میں ایک نئی جہت سے روشناس کروایا اور اپنے قابلِ فخر اساتذہ کے نام کو مزید روشن کیا اور اسلاف کی روایات و اقدار کی نہ صرف پاسداری کی، بلکہ ان اقدار و روایات کو عوام الناس میں روشناس بھی کروایا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہم سب کے یکساں محبوب اور روحانی استاد ہیں ۔ دنیا سے جانے والے چلے جاتے ہیں ، مگر ان کی یادیں باتیں ہمیشہ گلاب کی طرح کھلکھلاتی اور خوشبو فراہم کرتی رہتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی قبر کو نور سے منور فرمائے۔ آمین
Flag Counter