Maktaba Wahhabi

346 - 924
گَھر کرنے لگی تھی، لیکن جوں جوں ورق گردانی کرتا گیا، روشنی بڑھتی گئی، یہاں تک کہ نگاہوں کو خیرہ کر دیا اور جماعت کے تابناک ماضی سے آنکھیں چرانا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہ گئی، اور ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہمیں ایسا مورخ ملا جو محض مورخ ہی نہیں ، بلکہ صاحب طرزِ ادیب بھی تھا۔ تاریخ و ادب کے حسین سنگم سے جماعت کی سوانح کے جو چشمے پھوٹے ہیں ، وہ سب کے نصیب میں نہیں ہوتے، لیکن اس کے رخصت ہو جانے کے بعد اب اس جیسا کوئی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر مختصراً یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ کی شخصیت سیرت و سوانح نگاری کے باب میں جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس راہ میں آپ نے تن تنہا جو خدمات انجام دیں ، اس کا تصور ایک پوری انجمن اور ایک تنظیم سے بھی ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے حد خوش نصیب بنایا تھا، علم و عمل سے گہری وابستگی کے ناتے انھیں کبار علما سے جو تعلق پیدا ہوا تھا، وہ ہماری نظروں میں آپ کی سب سے بڑی خوش نصیبی تھی۔ علامۂ عصر مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امر تسری، سرخیل جماعت مولانا محمد جونا گڑھی، امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ جیسوں کے محض دیدار ہی سے مشرف ہو جانا کیا خوش قسمتی نہیں ہے؟ کیا نعمتِ الٰہی کا تتمہ نہیں تھا کہ مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولاناحافظ محمد گوندلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ جیسے مشفق اساتذہ کے زیرِ سایہ اور زیرِ تربیت آپ کے ماہ و سال گزرے۔ شاید اسی قربت کا فیضان تھا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے قلم سے ان پاک باز نفوس کے تذکرے پر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل تڑپ اُٹھتا ہے۔ اپنی خوش نصیبی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ مولانا رحمہ اللہ کی ذات پر اسی رشک نے ہمیں مجبور کر دیا کہ اگرچہ شرف دیدار ممکن نہ ہو، سماعت ہی آپ کی آواز سے مشرف ہو جائے۔ چنانچہ ایک کرم فرما سے آپ کا نمبر حاصل کیا۔ بات کے لیے ماحول بنایا، موبائل کو متوسط مقدار میں خوراک فراہم کی اور دھڑکتے دل سے رابطہ کیا۔ ابتدا میں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں گا، مگر جب مولانا شروع ہو گئے تو دل مطمئن ہو گیا۔ پہلے اپنا تعارف کرایا۔ جان کر بے حد خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہندوستانیوں سے بات کر کے انھیں بہت خوشی اور مسرت ملتی ہے۔ والد صاحب کی مدرسہ اہلِ حدیث رحمانیہ سے متعلق تازہ کتاب پر مسرت کا اظہار فرمایا۔ اس پر اپنی تقدیم کا بھی ذکر کیا، اسی اثنا میں ہمارا موبائل بیلنس ختم ہو جانے کے سبب سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بڑے آدمی کی بڑائی اس موقع پر دیکھنے کو ملی، جب مولانا نے کمال شفقت سے اپنی طرف سے رابطہ فرمایا اور والد محترم سے سلام عرض کرنے کو کہا۔ مزید نصیحت فرمائی کہ اپنے موبائل کو غذا فراہم کر کے دوبارہ رابطہ کیجیے۔
Flag Counter