Maktaba Wahhabi

352 - 924
حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ سلف صالحین کے بہت قدر دان تھے اور ان میں سے بھی خصوصاً ایسے علمائے کرام جن کا تعلق زہد و تصوف سے ہے۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا قلم تب تک آگے نہیں بڑھتا، جب تک تفصیل سے ان علما کی زندگی میں زہد و ورع کا پہلو یعنی اعلیٰ اخلاق، ذکر و عبادت میں استغراق، ان کی دعاؤں کی مقبولیت وغیرہ کے واقعات نہ لکھ لیتے۔ ایک شام فرمانے لگے! میں ان حضرات سے اتفاق نہیں کرتا، جو برصغیر میں اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں صوفیہ کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے۔ موجودہ علما کا دور تو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ صدی قبل کا ہے، اس سے پہلے تو اس ملک میں صوفیہ ہی تھے۔ جو مختلف ممالک سے تشریف لائے تھے۔ انھوں نے یہاں آکر بہت سی دینی خدمات انجام دی ہیں ۔ میرا نقطہ نظریہ ہے کہ ان اولیائے کرام رحمہ اللہ کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دی جائے، کیونکہ انھیں کی مساعی سے یہاں اسلام پھیلا ہے۔ پھر فرمایا: ’’صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ(ماموں کانجن)کا یہ قول بالکل درست ہے کہ ’’توحید اندر کی بھوک اور تصوف(زہد)اندر کی پیاس ہے۔‘‘ کیوں کہ اگر ہم لوگوں کو سچا تصوف نہیں دیں گے توپھر وہ میلوں ٹھیلوں پر اور درباروں پر جائیں گے۔‘‘ ایک اور نشست میں یوں فرمانے لگے: ’’جب میں اپنی کتابوں میں اہل اللہ کے تذکرے کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ میں اس تصوف کا قائل ہوں جو نیکی اور صالحیت پر دلالت کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص تقویٰ شعار ہے اور اسے صوفی کہا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ صوفی اللہ کے نیک بندوں کو کہتے ہیں ۔ دنیا میں ایسے بندے بھی موجود ہوتے ہیں ، جو اللہ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ پاک ان کی قسم کی لاج رکھتے ہوئے، وہ کام کر دیتے ہیں ۔‘‘ ویسے تو حضرت بھٹی رحمہ اللہ کے ہم عصر تمام علمائے کرام سے روابط تھے۔ مگر مولانا محمد داود غزنوی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا محی الدین لکھوی رحمہم اللہ کے ساتھ ان کا خاص قلبی تعلق تھا۔ اکثر و بیشتر مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کی باتیں بتایاکرتے تھے کہ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے علمائے دیو بند کے ساتھ بھی بہت ہی اچھے تعلقات تھے۔ جن میں مولانا احمد علی لاہوری، مفتی محمد شفیع صاحب اور مفتی محمد حسن رحمہم اللہ صاحب وغیرہم کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ایک مرتبہ مسکراتے ہوئے راقم کو فرمانے لگے کہ شخصیت پہ کتاب لکھنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے، مگر حنفیوں کے ہاں جس مشہور ہستی کا انتقال ہو جائے، اس کے چالیسویں پر ہی مکمل کتاب آجاتی ہے۔(اس وقت ان کے سامنے میاں محمد عالم مختار حق صاحب حنفی کی سوانح عمری پڑی ہوئی تھی، جو ان کی وفات کے ٹھیک چالیس دن بعد منظرعام پر آگئی تھی)۔ ایک دن عصر کے وقت بتانے لگے کہ مولانا ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ ہر جمعرات کو انجینئرنگ یونیورسٹی میں مجلسِ ذکر و فکر
Flag Counter