Maktaba Wahhabi

373 - 924
کہ وہ میری طرف دیکھ رہے ہیں اور پیاری پیاری گفتگو فرما رہے ہیں ۔ راقم ۱۹۹۰ء میں دار الدعوۃ السلفیہ جیسے علمی و تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوا تو یہاں ’’پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری دعائیں ‘‘(جسے ہم اپنے استاذِ محترم قاری محمد سعید اشرف صاحب(خطیب جامع مسجد مبارک اہلِ حدیث چنیوٹ)سے پڑھا کرتے اور دعائیں یاد کرتے تھے)کے مولف، عظیم ہستی حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ بزرگانِ صحافت و علم کے قدموں میں رہنے اور ان کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، حضرت مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظاللہ ، حضرت قاری نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ ، جناب علیم ناصری رحمہ اللہ ، مولانا محمد سلیمان انصاری رحمہ اللہ اور محترم حافظ احمد شاکر حفظہ اللہ کے دیکھا دیکھی لکھنے، لکھانے کی طرف توجہ ہوئی۔ خصوصاً محترم علیم ناصری رحمہ اللہ نے لکھنے کے انداز سمجھائے۔ بس یہی بزرگوں کی خدمت کی برکت تھی کہ تھوڑا سا لکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین حضرت مولانامحمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہمیشہ حوصلہ افزا باتیں فرماتے اور لکھنے میں اصلاح فرماتے رہتے، ان کی شفقتیں تاحیات یاد رہنے والی ہیں ۔ ۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو حضرت مرحوم کی طبیعت کچھ خرا ب ہوئی تو ان کے برادرِ اصغر جناب سعید احمد بھٹی انھیں میو ہسپتال لے گئے۔ ان کی علالت کی خبر ملک کے اطراف و اکناف میں دھیرے دھیرے پھیلنا شروع ہو گئی۔ راقم ۲۲؍ دسمبر کی صبح کو باجماعت نمازِ فجر سے فارغ ہوا تو حضرتِ مخدوم مکرم کے لیے دعاؤں کا سلسلہ زبان پر جاری ہو گیا، پھر کچھ خیال ایسے ہوا کہ اگر خدانخواستہ ۔۔۔ تو پھر ۔۔۔؟ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دفتر ’’الاعتصام‘‘ سے فون آگیا کہ مولانائے گرامی قدر کا انتقال پر ملال ہو گیا ہے۔ ذہن پہلے ہی ایسی سوچ میں مگن تھا اور خبر سن کر خیال اللہ کی قدرتِ کاملہ کی طرف ہو گیا اور ’’إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون‘‘ زبان پر جاری ہوا۔ راقم دفتر جانے کی تیار کرنے لگا۔ بیشتر احبابِ جماعت اور علمائے کرام کو فون پر مطلع کیا جانے لگا اور آناً فاناً پورے ملک کے اہلِ علم و قلم باخبرہوگئے۔ حافظ احمد شاکر صاحب مع اہلِ خانہ سب مولانا کے گھر ساندہ چلے گئے۔ حافظ حماد شاکر، حافظ خلاد شاکر، اسامہ شاکر اور راقم حضرت مرحوم کے آخری سفر کی تیاری(غسل، کفن)وغیرہ کے لیے گئے۔ ہمارے ساتھ فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے ساتھی بھی تشریف لے آئے، اُنھوں نے غسل، کفن اور ایمبولینس کے انتظامات میں بھرپور حصہ لیا۔ غسل کے بعد مخدومِ گرامی کا چہرہ چمک اُٹھا۔ ایک خاص بات راقم نے یہ دیکھی کہ اکثر اوقات اپنے ہاتھوں سے کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے کے باعث حضرت کے ہاتھ کا دایاں انگوٹھا اور انگشتِ شہادت یوں ساتھ ملے ہوئے تھے کہ گویا اب بھی کچھ لکھ رہے ہیں ۔ فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس میں ہم میت کو گھر سے ناصر باغ نمازِ جنازہ کے لیے لے کر نکلے۔
Flag Counter