Maktaba Wahhabi

377 - 924
خوش ہوئے(اس ملاقات کے موقع پر میرے دوست الشیخ عبدالعزیز بن عبدالواحد بٹ(فاضل مدینہ یونیورسٹی و حال مدرس جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)بھی ساتھ تھے)ان سے کافی طویل مجلس رہی، مختلف امور پر خوب گفتگو ہوئی، ان دنوں میں نے ان کی کتاب ’’ ہفت اقلیم‘‘ کا مطالعہ کیا تھا، اس میں موجود ایک ’’ناقابلِ نوشت لطیفہ‘‘(سریفو والا)کے بارے میں دریافت کیا، جو انھوں نے بڑے دلچسپ پیرائے میں سنایا، ان کے سنانے کا انداز ہی لطف دے گیا، جس سے علم ہوا کہ بھٹی صاحب مرحوم ’’فنونِ لطیفہ گوئی‘‘ کے اسلوب سے بہ خوبی واقف ہیں اور اس باب میں وہ ’’امام‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ہماری انھوں نے خوب خاطر مدارات کی، دوپہر کا کھانا کھلائے بغیر جانے نہ دیا، وہ واقعی مہمان نواز، ملنسار، زندہ دل، خوش طبع آدمی تھے۔ اسی مجلس میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب ان سے کوئی اہلِ حدیث اہلِ علم ملاقات کے لیے آتے ہیں تو بے چارے اکیلے آ رہے ہوتے ہیں اور جب کسی غیر اہلِ حدیث اہلِ علم کی آمد ہوتی ہے تو ان کے ساتھ ان کے متعلقین و خدام کا مکمل ’’پروٹوکول‘‘ ہوتا ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ یہ ہے ہمارے لوگوں کے ہاں اہلِ علم کی قدر اور سلوک!!! میں جب بھی انھیں فون کرتا، ان سے ان کے قلمی کاموں کے بارے میں دریافت کرتا، وہ بڑی تفصیل سے ان کاموں کے بارے میں بتاتے۔ میرے پاس دوچار کتابوں (الفہرست ابن ندیم، مترجم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، لسان القرآن(جلد سوم)، ترجمہ ریاض الصالحین)کے علاوہ باقی تمام کتب موجود ہیں ، واللّٰہ الحمد۔(مؤخر الذکر کتاب میں نے خپلو بلتستان کی ایک پبلک لائبریری میں دیکھی تھی، اس وقت مجھے علم ہوا کہ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ کا بھی ترجمہ کیا ہے اور اس کا ذکر میں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے بھی کیا تھا)۔ میں نے ان کی کتب کا بڑے شوق و انہماک سے مطالعہ کیا ہے، ان کی کتب سے سب سے پہلا تعارف دورِ طالب علمی میں ہوا، جب میں دار العلوم تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ میں پڑھتا تھا، اس وقت ان کی دو کتابیں (بزمِ ارجمنداں اور نقوشِ عظمتِ رفتہ)مطالعے کے لیے میسر آئیں ، اس کے بعد اُن کی ساری کتابیں نہایت اہتمام سے خریدیں ۔ دورانِ مطالعہ کئی ایک کتابوں میں درج کمپوزنگ کی غلطیاں نوٹ کر کے انھیں لکھ کر بھیجیں ، جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ میرے نام بھیجے گئے خطوط میں بھی انھوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔(محترم قارئین ان خطوط کا بھی مطالعہ کریں گے جو محترم حمید اﷲ خاں عزیز صاحب کو اشاعت کے لیے بھجوائے گئے ہیں اور وہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے خطوط پر خصوصی کتاب مرتب کر رہے ہیں ) ایک کتاب ’’تذکرہ مولانا احمد الدین گکھڑوی‘‘ اور ایک کتاب جو مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ کی تفسیر سے متعلق ہے، انھوں نے مجھے بطور تحفہ ارسال کی، یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی۔ ان کی تحریر نہایت عمدہ اور شاندار تھی۔ پڑھنے والا دورانِ مطالعہ کہیں بھی کسی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا اور دل کرتا ہے کہ ایک ہی مجلس میں کتاب کو ختم کر کے دم
Flag Counter