Maktaba Wahhabi

378 - 924
لے۔ واقعات کی تمام جزئیات کو اس وضاحت سے تحریر کرتے کہ پڑھنے والا تصور میں اپنے آپ کو ان مقامات کی سیر کرتا ہوا پاتا۔ ان کا حافظہ کس قدر مضبوط تھا، اس کا اندازہ ’’تذکرہ صوفی عبداﷲ رحمہ اللہ ‘‘(ماموں کانجن والے)کا مقدمہ پڑھ کر ہوگا کہ جب انھوں نے اس کتاب کو مکمل کیا اور مراجعت کے لیے حضرت صوفی صاحب مرحوم کے معتمدِ خاص مولانا عبدالقادر ندوی مرحوم کو دی، وہ اسے کہیں رکھ کر بھول گئے اور کتاب گم ہوگئی تو انھوں نے اس کتاب کو دوبارہ اپنے حافظے کی مدد سے مکمل کیا۔ محترم بھٹی صاحب مرحوم نے اپنی کتب میں ہر مکتبہ فکر کے علما کا ذکر اچھے اور عمدہ پیرائے میں کیا ہے، جہاں کہیں کسی سے اختلاف بھی کیا ہے تو وہ بھی انتہائی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کیا ہے،(’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ اور ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ کے خوانندگان کرام نے یہ بات محسوس کی ہوگی)یہ چیز انھوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر اساتذہ کی صحبت میں رہ کر سیکھی اور اس امر کی آج کے اس دور میں بھی نہایت اشد ضرورت ہے، اس حوالے سے محترم بھٹی صاحب مرحوم کی کتب نہایت مفید ہیں ۔ اس تربیتی پہلو کو انھوں نے اپنی کتب میں متعدد مقامات پر اُجاگر کیا ہے۔ ادب و احترام کے مظاہر بھی جا بجا نظر آتے ہیں ۔ خصوصاً اپنے اساتذہ کا ذکر تو نہایت ہی احترام کے اسلوب میں کرتے ہیں ، کاش کہ ہماری نوجوان نسل انہی کتب سے کماحقہ مستفید ہو۔ ایک مرتبہ فون پر فرمانے لگے کہ ’’میرا ہم عمر کوئی بھی باقی نہیں رہا، سب چلے گئے، میں بھی ایک دن اس دنیا سے کوچ کر جاؤں گا۔‘‘ اور وہ واقعی ہمیں سوگوار چھوڑ کر چلے گئے۔ رمضان میں مَیں نے انھیں فون کیا تو فرمانے لگے: ’’شدتِ موسم کے باوجود روزے رکھ رہا ہوں ۔‘‘ اور واقعی یہ رمضان(۱۴۳۶ھ)جو گزرا ہے، موسم کے اعتبار سے نہایت سخت تھا، ملک کے اطراف و اکناف میں شدتِ موسم کی وجہ سے کافی اموات بھی ہوئیں ، لیکن محترم بھٹی صاحب مرحوم نے اس پیرانہ سالی میں مکمل روزے رکھے۔ تقبل اللّٰہ منہ صالح الأعمال۔ عیدِ قربان پر عید کی مناسبت سے مَیں نے فون کیا تو بہت خوش ہوئے، قریباً کوئی نصف گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ وقت ان سے بات ہوئی اور مزید ’’ناقابلِ نوشت لطیفے‘‘(مولانا مودودی صاحب مرحوم کا ’’ناقابلِ نوشت لطیفہ‘‘ جس کا ادھورا ذکر ’’ ہفت اقلیم‘‘ میں ہے اور مولانا سید داود غزنوی مرحوم کا ’’ناقابلِ نوشت لطیفہ‘‘)اپنے خاص انداز میں انھوں نے سنائے، اس موقع پر بھی اور جب بھی بارہا ان سے بات ہوتی تو مجھے فرماتے کہ ’’یار آکر مل لو، زندگی کا کیا پتا، کب ختم ہو جائے۔‘‘ میں اپنی مصروفیات کا رونا روتا رہتا اور کہتا کہ ضرور زیارت کو حاضر ہوں گا، لیکن ہنگامِ زندگی نے مجھے فرصت نہ دی اور موت نے انھیں مزید جینے کی مہلت نہ دی، نتیجہ یہ ہے بیٹھا کفِ افسوس مَل رہا ہوں کہ کاش کوئی فرصت نکال کر زیارت کر لیتا!! قدر اللّٰہ ما شاء و فعل۔
Flag Counter