Maktaba Wahhabi

39 - 924
حقیقی بات یہ ہے کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، صاحب ِطرز ادیب، مستند عالمِ دین، مایہ ناز خاکہ و تذکرہ نگار اور خوبصورت اسلوبِ تحریر کے مالک تھے، جس موضوع پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے وابستگی کے دور میں انھوں نے چوتھی صدی کے نامور محقق محمد بن اسحاق ابن الندیم کی مایۂ ناز کتاب ’’الفہرست‘‘ کا بڑا رواں دواں اور خوبصورت ترجمہ کیا۔ اسی طرح دس جلدوں میں اپنی جامع تصنیف ’’فقہائے ہند‘‘ میں تیرھویں صدی تک کے ہزاروں علما و فقہا کے حالات قلم بند کیے۔ اسی ادارہ کے ماہنامہ ’’المعارف‘‘ کی ادارت کی ذمے داری بھی انجام دیتے رہے۔ آپ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور، ہفت روزہ ’’توحید‘‘ لاہور اور سہ روزہ ’’منہاج‘‘ لاہور اور ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ لاہور کے بھی مدیر رہے اور ان کے علمی اور تحقیقی اداریوں کا بڑا شہرہ رہا۔ آبائی طور پر محترم بھٹی صاحب رحمہ اﷲ کا تعلق شہر کوٹ کپورہ(ریاست فرید کوٹ‘ مشرقی پنجاب)سے ہے۔ جب آپ پرائمری کلاس کے طالب علم تھے تو ساتھ ہی حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اﷲ سے قرآنِ مجید ناظرہ اور ابتدائی دینی کتابیں اور بعد ازاں ان سے ترجمہ قرآن کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی ابتدائی کتب بھی پڑھ لیں ۔ مولانا محمد شفیع ہوشیار پوری رحمہ اللہ اور مولانا ثناء اللہ ہوشیارپوری رحمہ اللہ(مدر سین: جامعہ سلفیہ فیصل آباد)بھی آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں ۔ پھر حضرت مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ کے ارشاد پر مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے گوجرانوالہ میں درسِ نظامی کی تکمیل پر سندِ فراغت حاصل کی۔ پھر تقریباً چار سال مرکز الاسلام میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ ریاست فرید کوٹ میں سیاسی سرگرمیوں کے دوران میں آپ کئی مہینے زندان کے مہمان رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ چک نمبر ۵۳۔ گ، ب متصل جڑانوالہ آباد ہو گئے۔ وہاں تجارت اور کھیتی باڑی شروع کر دی اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث مغربی پاکستان کے قیام پر بطور ناظم دفتر لاہور آگئے اور مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں صحافت سے تعلق جوڑ لیا۔ پھر تصنیف و تالیف اور تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ان کی نگارشات اس قدر دلچسپ ہوتی ہیں کہ قاری کسی مقام پر بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ مصنف اپنے ظریفانہ اسلوب سے اس میں مزید دلچسپی پیدا کر دیتا ہے۔ پھر عظمتِ الفاظ اور شوکتِ بیان ان کی نگارشات کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بڑی سادگی سے زندگی بسر کی، وہ تکلف سے کوسوں دور اور شہرت سے نفور تھے۔ اخلاص، باہمی محبت و ہمدردی، حسنِ اخلاق، عجز و انکساری، قناعت، زہد و تقویٰ اور حلم وقلم ان کا سرمایہ حیات تھے۔ انھوں نے بلا امتیاز علما اور دیگر شخصیات کے حالات، خدمات، مشاہدات اور واقعات بڑے اچھوتے انداز میں قلم بند کیے ہیں ۔ مرحوم کو برصغیر کی علمی، ادبی، سیاسی، جماعتی، قومی اور دینی شخصیات سے ملاقات اور گفتگو سے استفادے کا موقع ملا۔ ان میں مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، حضرت مولانا ابو الکلام آزاد، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی، حضرت مولانا محمد علی قصوری، حضرت مولانا ظفر علی خاں ، مولانا غلام رسول مہر، حضرت مولانا عبدالقادر قصوری، حضرت مولانا صوفی محمد عبداللہ، خواجہ عبدالحی فاروقی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا سید ابو الاعلیٰ
Flag Counter