Maktaba Wahhabi

416 - 924
ہے، جو کسی مدرسے کا فارغ التحصیل نہ تھا اور جب وہ اس دنیا سے گیا تھا تو اس کے ہاتھ میں درسِ نظامی سے فراغت کی کوئی سندِ فضیلت نہ تھی۔ دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ درسِ نظامی کی اسنادِ فضیلت سے محرومین مگر ایسے اصحابِ اخلاص و ایثار صوفیوں کے وجود اور ان کے اعمالِ خیر سے دنیا کو کبھی خالی نہ کرے۔ یہ ایک فاضلِ وقت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے قلم سے لکھا ہوا صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی حیاتِ مستعار کا تذکرہ ہے، لیکن اس میں ان کے جن خصائصِ ایمانی، ان کے اخلاص وللہیت، محاسنِ سیرت، جن خدماتِ دینی و ملی اور ایثار فی سبیل اللہ کا ذکر ہے، ان کے لیے چونکہ قدرت نے موت نہیں لکھی، اس لیے یہی تذکرہ ان کی حیاتِ جاوداں کا موجب بھی بن گیا۔ حضرت صوفی صاحب کاانتقال ۲۸؍ اپریل ۱۹۷۵ء کو ہوا۔ فروری ۲۰۰۶ء میں یہ تذکرہ شائع ہوا، تو ممکن ہے کہ تیس سال کے عرصے میں ان کا جسم خاکی مٹی بن گیا ہوگا، لیکن یہ تذکرہ پڑھ کر معلوم ہوا کہ وہ زندہ ہیں ۔ اگرچہ ہم اپنے سر کی آنکھوں سے ان کی اخروی زندگی کا نظارہ نہیں کرسکتے، لیکن ایمان اور عقیدے کی روشنی میں اپنی چشمِ بصیرت سے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعتِ کاملہ کے صلے میں اپنے بے پایاں انعامات اور نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں کی حسنِ معیت کے شرف اور رفاقت کے لباسِ فاخرہ سے نوازا ہے اور ان کی زندگی بڑے عیش و مسرت سے گزرتی ہے۔ ہمارے اعتقاد پر قرآنِ کریم(۴: ۲۹)سے بڑی شہادت اور کیا ہوسکتی ہے۔ کسی کتاب کی خوبی اس کی نگارش کے حسن اور دل آویزی میں ہوتی ہے۔ ایک خوب صورت تحریر مطالعے کو دلچسپ اور موضوع کو جاذبِ نظر بناتی ہے، اور اس کی تاثیر میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اگر کسی اچھے اور مفید موضوع کی حامل کتاب کو پڑھ کر عمل کی تحریک پیدا نہ ہو تو اس کے مفید ہونے کا کیا فائدہ؟ ’’صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ‘‘مولف کے حسنِ نگارش کی ایک بڑی خوبی اس کے مطالعے کی تاثیر میں ہے، اس کے مطالعے سے ایک خشک مذہبی زندگی کا تصور پیدا نہیں ہوتا، بلکہ سیرت کے محاسن، جذباتِ صادقہ سے معمور بلند عزائم اور ذوقِ عمل سے آشنا زندگی ہمارے سامنے آتی ہے، جس کی خوبی اس کے پیکر کے حسن میں نہیں ، اس کی رب پرستی، نیک عملی، اخلاص و ایثار، سیرت کی پختگی، زندگی کی سادگی، اسلام کی راہ میں جاں نثاری، خدمتِ ملت کے شوق و ولولے، انسان دوستی، غربا پروری، مظلوم کی داد رسی، خدمتِ خلق کے جذبے میں تھی۔ حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کی زندگی کے تمام اعمال ہر طرح کے ذاتی اغراض اور لوث و لالچ سے پاک تھے۔ ان کے کسی عمل میں ریا اور کسی بات میں دکھاوا نظر نہیں آتا۔ وہ صاف باطن، اخلاصِ عمل کا پیکر ’’الحب اللّٰہ والبغض في اللّٰہ ‘‘ کی مثال اور ﴿ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ کا نمونہ تھے۔ یہ تذکرہ پڑھ کر دل میں آرزو پیدا ہوئی اور حسرت جاگی کہ کاش ہمیں بھی ان کی صحبت نصیب ہوتی۔ یہ ان کی سیرت کی بڑی سچائی تھی، جس نے ہمارے دل پر اثر کیا، لیکن اس کا شعور ہمیں ان کے مصنف کے قلم نے بخشا۔ ان کی صحبت سے فیض کا داعیہ ہمارے قلب
Flag Counter