Maktaba Wahhabi

426 - 924
’’علی گڑھ کبھی الحادیا انکارِ حدیث کا مرکز نہیں رہا۔ بے شک ایک زمانے میں سرسید احمد خاں کے بعض مذہبی افکار میں تبدیلی آگئی تھی، لیکن ان کے مذہبی افکار سے چند ہی افراد متاثر ہوئے۔ خود ان کے سوانح نگار مولانا حالی(مصنف حیاتِ جاوید)پر ان کے مذہبی افکار کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے علی گڑھ کالج(پھر یونیورسٹی)قائم کر کے ہندوستانی مسلمانوں کی بے حد خدمت کی، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ، بلکہ سب اسے ان کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہیں ۔ مذہبی اعتبار سے علی گڑھ مولانا عبدالجلیل شہید کا شہر تھا، جنھوں نے ۱۸۵۷ء میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے اسی شہر میں شہادت پائی،(شہر کی جامع مسجد میں اس کے شمالی دروازے سے متصل صحن مسجد میں دیگر شہدا کے ساتھ مولانا عبدالجلیل علی گڑھی کی قبرہے [رفیق] ان کے بیٹے مولانا محمد اسماعیل کا شہر تھا۔ مولانا عبدالتواب غزنوی علی گڑھ کے شہری تھے، جنھیں ہزاروں حدیثیں زبانی یاد تھیں ۔ اس شہر میں ہمیشہ علمائے حدیث کا اثر رہا۔ اب بھی یہی حالت ہے۔ وہاں کے لوگ منکرینِ حدیث سے متاثر نہیں ہیں ۔ وہ حدیث کو ماننے والے اور اس پر عمل کرنے والے مسلمانوں کا مرکز تھا اور مرکز ہے۔‘‘(ص: ۸۳) محترم بھٹی صاحب نے علی گڑھ کی بالکل صحیح اور واقعی تصویر پیش کی ہے۔ میں علی گڑھ ہی میں رہتا ہوں ، بلکہ اب یہی میرا وطن ہے۔ یہ شہر نہ کبھی منکرینِ حدیث کا مرکز رہا ہے اور نہ آج ہے۔ قدیم شہر اور سول لائنس دونوں حصوں میں اہلِ سنت مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ جماعت اہلِ حدیث کی یہاں دس مساجد ہیں ۔ سات قدیم شہر میں اور تین یونیورسٹی کے علاقے یعنی سول لائنس میں ۔ یونیورسٹی کے تمام اقامتی ہالوں میں مساجد ہیں ، جو طلبہ اور یونیورسٹی کے ملازمین سے آباد ہیں ۔ یونیورسٹی کی تمام مساجد میں جہری نمازوں میں صدائے آمین گونجتی ہے اور اہلِ حدیث طلبہ یہاں دعوت و تبلیغ کی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ میں خود بھی اس علاقے میں کئی مقامات پر ہفت روزہ درسِ قرآن اور درسِ حدیث دیتا ہوں ۔ یونیورسٹی کی مساجد میں محاضرے اور مختلف موضوعات پر تقریریں ہوتی ہیں ۔ میں قدیم شہر کی ایک اہلِ حدیث مسجد میں گذشتہ ۲۷سال سے خطبہ جمعہ دیتا ہوں ، جس میں شرکاء کی بڑی تعداد دیوبندی اور بریلوی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ یہاں خطبات سنتے ہیں اور پھر اللہ توفیق دیتا ہے تو کتاب و سنت پر عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ ایک بڑی تعداد نئے اہلِ حدیث افراد کی ہے اور وہ اپنے اپنے حلقوں میں مصروفِ دعوت و ارشاد ہیں ۔ اللہ ان خدمات کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ان تمام بزرگوں ، احباب اور دوستوں کو شاد و آباد رکھے، جن کے تعاون، تائید اور حمایت سے یہ سارے کام انجام دے پارہا ہوں ۔ میں ذاتی طور پر شکر گزار اور دعاگو ہوں کہ مصنف ذی اکرام نے شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ کے تذکرے میں ’’مکاتیبِ حضرت شیخ الحدیث‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے اس فقیر کا بھی ذکر کیا ہے اور میری مرتب کی
Flag Counter