Maktaba Wahhabi

429 - 924
حوصلے، ادب و خاکہ نویسی اور سوانح نگاری کا ایک زمانہ نہ صرف معترف، بلکہ نغمہ سرا ہے۔ اسی طرح بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تصانیف کے متعلق بھی کچھ کہنا، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کیوں کہ آج کے دور میں سوانح نگاری کے لحاظ سے کسی بھی کتاب کے معتبر اور مقبول ہونے یا اس کی عظمت و رفعت کے لیے بس ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کا نام ہی کافی ہے۔ فللّٰہ الحمد میں تو صرف ان سطور میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’چمنستانِ حدیث‘‘ سے چند ایسے مقامات کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں ، جن میں علمائے کرام، طلبا اور مدارس کے اصحابِ انتظام اور معاونین کے لیے موعظت و نصیحت موجود ہے، تاکہ آج کے اس پُر فتن اور پُر آشوب دور میں کہ جب دینی مدارس اور علمائے کرام خصوصاً اور دین سے تعلق رکھنے والے لوگ عموماً پُرخطر حالات سے گزر رہے ہیں ، ان سے راہنمائی لیں اور اپنا کام جاری رکھیں تو جو شخص بھی دینِ اسلام کا عالم اور داعی ہے، اس کو سراپا وقار اور استقامت ہونا چاہیے، بڑی سے بڑی آزمایش بھی اسے دینِ اسلام کی خدمت سے نہ روک سکے اور کسی بھی مصیبت میں وہ اپنے عقیدے اور منہج کے معاملے میں نا تو شکوک و شبہات کا شکار ہو اور نہ ہی وہ اس میں کسی قسم کی لچک دکھائے۔ ایسے ہی ایک عالمِ ربانی کا واقعہ بھٹی صاحب زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر ۹۵ پر تحریر فرماتے ہیں ۔ اور یہ عالمِ ربانی ہیں مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمہ اللہ ۔ ایک دفعہ ریاست فریدکوٹ کے راجا بکرم سنگھ نے ایک مناظرے کا اہتمام کیا، جس میں اہلِ حدیث کی طرف سے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی شامل تھے۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’راجا فرید کوٹ باقاعدگی سے مناظرے میں شامل ہوتا اور بڑے غور سے پوری کارروائی سنتا۔ علمائے کرام کی گفتگو اور ان کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمہ اللہ کے دو عمل خاص طور پر راجا فرید کوٹ کے مرکزِ توجہ رہے: (1)۔ ایک یہ کہ تمام علمائے کرام کو کھانا راجا صاحب کی طرف سے دیا جاتا تھا اور وہ اسی کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے، لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمہ اللہ اور ان کے کوٹ کپورہ کے رہنے والے ایک مرید حاجی نور الدین وہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اس وقت فرید کوٹ میں موضع بڈھیمال کا ایک حجام رہتا تھا۔ ان دونوں نے کھانے کے پیسے اسے دے دیے تھے، وہی ان کا کھانا تیار کرتا تھا اور یہ اس کے گھر میں اپنی گرہ سے کھانا کھاتے۔ (2)۔ دوسری بات یہ کہ جب مجلسِ مناظرہ میں راجا صاحب آتے تو علمائے کرام سمیت تمام حاضرین اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے، لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمہ اللہ کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ راجا صاحب نے مولانا سے کھڑے نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا: ہمارے مذہب میں غیر مسلم کی تکریم کرنا اور ادب سے اس کے لیے کھڑے ہونا جائز نہیں ۔ مولانا کے یہ الفاظ سن کر راجا خاموش ہو گیا، اور اس کے بعد وہ لوگوں کو اکثر یہ واقعہ سنایا کرتا اور کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک عالمِ دین مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمہ اللہ کو دیکھا ہے، جو صحیح معنوں میں اپنے مذہب پرعامل تھے۔
Flag Counter